اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ سنکیانگ کے دورے پر
24 مئی 2022اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ آج شمال مغربی چین کے سنکیانگ علاقے کا دورہ کر رہی ہیں۔ چین پر صوبے سنکیانگ میں ایغوروں اور دیگر مسلم اقلیتوں کے ساتھ غیر قانونی سلوک اور جبری مشقت کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔
امریکہ اس اقلیتی برادری کے خلاف برسوں سے جاری مبینہ سکیورٹی کریک ڈاؤن کو ''نسل کشی'' قرار دیتا ہے۔ تاہم چین اویغوروں کے ساتھ کسی قسم کے ناروا سلوک کی تردید کرتا رہا ہے۔
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی سربراہ چھ روزہ دورہ کے لیے چین میں ہیں۔ سن 2005 کے بعد اس طرح کا دورہ کرنے والی وہ اس دفتر کی پہلی سربراہ ہیں۔ توقع ہے کہ وہ سنکیانگ کے شہر ارومچی اور کاشغر کا بھی دورہ کریں گی اور بدھ تک سنکیانگ میں ہی رہیں گی۔
بیچلیٹ کو 'ببل' تک محدود رہنا ہو گا
اس دورے کے دوران کمشنر عوام سے ایسی ذاتی ملاقاتیں نہیں کر سکیں گی، جن کا چین نے پہلے سے اہتمام نہیں کیا ہو یا پھر وہ سرکاری ایجنڈے میں شامل نہ ہوں۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے اس حوالے سے کہا کہ کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملاقاتوں کا سلسلہ ''قریبی لوپ'' میں ہی رہے گا، اور انہیں مقامات پر جانے اور ایسے لوگوں سے ملنے کی اجازت ہو گی جس کا چینی حکومت نے پہلے سے اہتمام کر رکھا ہو گا۔ یعنی انہیں صرف انہیں اجلاسوں میں شرکت کی اجازت ہو گی جو پہلے سے طے شدہ ہیں۔
اس سے قبل اویغور گروپوں نے بیچلیٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دورے کے دوران ان کی ٹیم کو آزادانہ نقل و حرکت، حراستی مراکز تک رسائی اور اویغوروں کے ساتھ نگرانی کے حصار کے بجائے رابطے کی اجازت ہو۔''
خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے عالمی اویغور کانگریس گروپ کے ترجمان زومریتے آرکن کے حوالے سے کہا ہے کہ ''ہمیں تشویش اس بات کی ہے کہ یہ سفر بہتری سے زیادہ نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اور چین اس دورے کو اپنے پروپیگنڈہ مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔''
چین کو دورے سے غلط فہمیوں کے ازالے کی توقع ہے
چینی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق ملک کے وزیر خارجہ وانگ یی نے بیچلیٹ کو بتایا ہے کہ انہیں امید ہے کہ ان کا دورہ، ''غلط معلومات کو واضح کرنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔'' انہوں نے کہا، ''انسانی حقوق کے بین الاقوامی مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے، سب سے پہلے... انسانی حقوق پر سیاست کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔''
اس بیان کے مطابق وانگ نے اقوام متحدہ کی حقوق کی سربراہ کو یہ بھی بتایا کہ چین نے ''نسلی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو اپنے کام کا ایک اہم حصہ بنایا ہے اور لوگوں کی سلامتی کو اپنا طویل مدتی مقصد قرار دیا ہے۔''
سن 2018 میں اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ صوبے سنکیانگ میں 10 لاکھ اویغوروں کو ''بڑے حراستی کیمپوں '' میں رکھا گیا ہے اور اس کے بعد ہی اس معاملے پر بین الاقوامی جانچ پڑتال شروع ہوئی تھی۔
گرچہ بیجنگ نے ابتدا میں اس طرح کے کیمپوں کی موجودگی سے انکار کیا تھا، تاہم بعد میں اس نے کہا کہ وہ ''پیشہ ورانہ تربیتی مراکز'' ہیں جہاں لوگ تعلیم کے حصول اور مذہبی بنیاد پرستی کو روکنے کے لیے ''رضاکارانہ طور پر'' جا سکتے ہیں۔ اس کے بعد 2019 میں سنکیانگ کے گورنر نے کہا تھا ان مراکز کے تمام تربیت یافتہ اب ''گریجویٹ'' ہو چکے ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے ایف بی، روئٹرز، ایل یو ایس اے)