سلامتی کونسل ميں ايران کے خلاف امريکی قرارداد نا منظور
15 اگست 2020اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ميں ايران کو اسلحے کی فروخت پر عائد پابندی ميں توسيع سے متعلق ايک امريکی قرارداد جمعہ چودہ اگست کو واضح اکثريت کے ساتھ مسترد کر دی گئی۔ کسی بھی قرارداد کی منظوری کے ليے کم از کم نو ووٹ درکار ہوتے ہيں مگر کونسل کے مستقل پندرہ ارکان ميں سے صرف دو نے اس امريکی قرارداد کے حق ميں ووٹ ديا۔ امريکا کے بيشتر يورپی اتحاديوں سميت کل گيارہ ارکان نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہيں کيا جب کہ روس اور چين نے قرارداد کو مسترد کر ديا۔
دنيا کو حقيقی خطرہ ايران سے نہيں ترکی سے ہے، ڈگلس مکگريگر
ايران کے ایٹمی پروگرام پر اسرائيلی ڈرامہ سيريل
سن 2015 ميں ايران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابين طے پانے والی ڈيل کے تحت تہران حکومت کو 'کنونشنل ہتھياروں‘ کی فروخت پر پچھلے تيرہ سالوں سے چلی آ رہی پابندی کی مدت رواں برس اٹھارہ اکتوبر کو ختم ہو رہی ہے۔ امريکا نے سن 2018 ميں يکطرفہ طور پر ڈيل سے عليحدگی اختيار کر لی تھی اور تب ہی سے يورپی شرکاء ڈيل کو بچانے کی کوششوں ميں ہيں۔ واشنگٹن حکومت نے تازہ قرارداد کے مسودے ميں ايران کو اسلحے کی فروخت پر غير معينہ مدت کے ليے پابندی کا تذکرہ کيا تھا۔
تہران حکومت اس پيش رفت کو ايک کاميابی کے طور پر ديکھ رہی ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے ہفتے کو اپنی ايک ٹوئيٹ ميں لکھا، ''اقوام متحدہ کی پچھتر سالہ تاريخ ميں امريکا اس قدر تنہا کبھی نہيں ہوا۔‘‘ دوسری جانب امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو نے اس پيش رفت پر شديد مايوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی امن کے ليے فيصلہ سازی ميں ناکامی معافی کے لائق نہيں۔ کونسل ميں جرمن سفير گنٹر ساؤٹر کے بقول اس معاملے پر کسی اتفاق رائے اور ايک ايسے حل تک پہنچنے کے ليے مزيد وقت درکار ہے جو تمام ارکان کو منظور ہو۔
دوسری جانب سلامتی کونسل ميں امريکی قرارداد کے مسترد ہونے کے بعد ايسے امکانات پيدا ہو گئے ہيں کہ امريکا ايران کے خلاف پابندی برقرار رکھنے کے ليے شايد غير روايتی 'اسنيپ بيک‘ کا طريقہ کار اختيار کرے۔ ايسی اطلاع بھی ہے کہ اس ضمن ميں آئندہ ہفتے تحريری کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ماہرين کو خدشہ ہے کہ اس ممکنہ پيش رفت سے سلامتی کونسل کسی شديد سفارتی بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔
ع س / ع آ، اے ايف پی