الجزائرمیں بنیاد پرستی کے سامنے خواتین مذہبی گائیڈز کی دیوار
28 فروری 2015الجزائر کی وزارت مذہبی اُمُور نے تربیت یافتہ خواتین کے ذریعے ملک بھر میں شدت پسندی کے اثرات کو زائل کرنے اور اسلام کے امن و بھائی چارے کے پیغام کی ترویج کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ حکومت نے اب تک تین سو خواتین کی تربیت مکمل کر کے انہیں میدانِ عمل میں اتارا ہے۔ ایسی تربیت حاصل کرنے والی خاتون کو مرشدہ کے ٹائٹل یا لقب سے نوازا جاتا ہے۔ ان خواتین کا بنیادی کام ملک بھر کے ہر طبقے تک اسلامی اخوت اور برداشت کے پیغام کو عام کرنا ہے۔
الجزائر کو سن 1990 میں سخت گیر عقیدے کے سلفیوں کی مذہبی و سیاسی تحریک کا سامنا ہوا تھا۔ یہ تحریک اسلامک سالویشن فرنٹ (الجبهة الا سلامية للانقاذ) نے شروع کی تھی۔ حکومت اور سلفی سیاستدانوں کے درمیان مسلح چپقلش کے دوران دو لاکھ افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ اِس تحریک کی وجہ، حکومت کی جانب سے بلدیاتی انتخابات میں اسلامک سالویشن فرنٹ کی بڑی کامیابی کو تسلیم نہ کرنا بنی تھی۔ آج کے الجزائر کو ہمسایہ ملک لیبیا میں زور پکڑتے اسلامک اسٹیٹ کے حمایتی مسلح گروپوں کی شدت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔
الجزائری حکومت کی طرف سے تربیت حاصل کرنے والی خواتین میں شامل ایک چالیس خاتون فاطمہ زہرا کا کہنا ہے کہ اسلام میں ہلاک کرنا ایک گناہ ہے اور اِس باعث معصوم لوگوں مذہبِ اسلام کے نام پر ہلاک کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ حجاب پہنے ہوئے فاطمہ زہرا نے اپنی ساتھی مرشدات کے حوالے سے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اُن کا بنیادی مقصد الجزائر کے طول و عرض میں اُن لوگوں کو دینِ اسلام کے پیغام کے ذریعے جہادی بننے سے روکنا ہے جو کم علم اماموں کے ہاتھے چڑھنے سے بچے ہوئے ہیں۔ فاطمہ زہرا دینی تعلیم میں ڈگری رکھنے کے ساتھ ساتھ قران کی حافظہ بھی ہیں۔
الجزائر میں حکومت مخالف سلفی سیاسی تحریک کے دوران فاطمہ زہرا ایک طالبہ تھیں اور وہ اُن تلخ ایام کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ الجزائر میں اُس دور اسلام کے نام پر الجزائریوں نے اپنے ہم وطنوں کو ہلاک کیا تھا۔ وہ گزشتہ سترہ برسوں سے خواتین کی تعلیم و تربیت کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ اُن کو یہ یقین دلانا چاہتی ہیں کہ الجزائر میں حکومت اور انتہا پسندوں کے درمیان پیدا کشیدگی کی وجہ دینِ اسلام نہیں کچھ اور ہے اور اِس کشیدگی کا تعلق دین سے نہیں ہے۔ الجزائر کی مرشدات اپنے پیغام کی ترویج کے لیے نفسیاتی اور سماجی رہنما اصولوں کا استعمال بھی کرتی ہیں۔ یہ خواتین مساجد، جیلوں، نوجوانوں کے مراکز، ہسپتالوں اور اسکولوں میں جا کر اپنا پیغام پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اِن خواتین کو نماز کی امامت کی اجازت نہیں ہے۔