مالی امداد میں صرف ایک فیصد کمی سے چار لاکھ انسان فاقہ کش
12 ستمبر 2023اطالوی دارالحکومت روم سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے نے بتایا کہ اسے مالی وسائل فراہم کرنے والے ممالک کی حکومتوں کی طرف سے فنڈز کی ترسیل میں جس شدید کمی کا سامنا ہے، اس کے باعث ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) عالمی سطح پر انتہائی حد تک بھوک کے شکار کروڑوں انسانوں کی مدد کے لیے اپنی کارروائیوں کو مسلسل محدود کرتے جانے پر مجبور ہو چکا ہے۔
جی ایم فوڈ، کیا خوراک کی مستحکم پیداوار کا واحد راستہ؟
عالمی خوراک پروگرام کے مطابق مختلف بحرانوں کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر بھوک کے شکار انسانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ اگر ڈونر ممالک کی طرف سے مہیا کردہ فنڈز صرف ایک فیصد بھی کم ہو جائیں، تو تقریباﹰ چار لاکھ انسانوں کے لیے فاقہ کشی کا شدید خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔
اندرون ملک بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ
فنڈز کی کمی کا نیا ریکارڈ
ورلڈ فوڈ پروگرام، جس کے صدر دفاتر روم میں ہیں، نے کہا ہے کہ اسے درپیش فنڈز کی کمی اتنی شدید ہے کہ اس ادارے کی 60 سالہ تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ مزید یہ کہ یہ کمی ایسے حالات میں دیکھنے میں آ رہی ہے جب اس عالمی پروگرام کی مالی ضروریات مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں مگر اسے دستیاب وسائل کم سے کم تر ہی ہوتے جا رہے ہیں۔
شدید غربت سے جنگ کے لیے عالمی بینک کو سرمایہ درکار
یہ انہی حالات کا نتیجہ ہے کہ ڈبلیو ایف پی اپنی تقریباً نصف امدادی کارروائیاں روک دینے پر مجبور ہو چکا ہے۔ اس کمی نے جن بحران زدہ ممالک کے کروڑوں انسانوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، ان میں افغانستان، شام، صومالیہ اور ہیٹی نمایاں ہیں۔
اگلے برس کے لیے امکانات اور بھی تاریک
اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق یہ خطرہ بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر فنڈز کی کمی کی موجودہ صورت حال برقرار رہی، تو اگلے برس مختلف ممالک میں مزید 24 ملین انسان ہنگامی بنیادوں پر بھوک کے مسئلے کا شکار ہو جائیں گے۔
موسمیاتی تبدیلیاں، غذائی قلت کے شکار افراد کی تعداد دوگنی ہو گئی
ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سِنڈی میکین کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق عالمی سطح پر اس وقت انسانوں میں فاقہ کشی کی سطح اور متاثرہ انسانوں کی تعداد ریکارڈ حدوں کو چھو رہی ہیں، اس لیے ڈونر ممالک کو اپنی طرف سے مالی مدد کم کرنے کے بجائے بڑھانا چاہیے۔
مزید دو ملین افغان باشندوں کو امدادی خوراک کی ترسیل منقطع
انہوں نے کہا، ''اگر ہماری وہ مدد نہ کی گئی، جس کی ہمارے ادارے کو متاثرہ انسانوں کو مزید تباہ کن حالات سے بچانے کے لیے ضرورت ہے، تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا بھر میں آئندہ تنازعات، بدامنی اور بھوک، سبھی میں اضافہ ہو گا۔‘‘
سِنڈی میکین نے اپنی اپیل میں یہ بھی کہا، ''اب ہم یا تو عالمی عدم استحکام کے شعلوں کو ہوا دے سکتے ہیں یا پھر ہم جلد سے جلد اس وسیع تر آگ کو بجھانے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں۔‘‘
م م / ش ر (اے پی، ڈی پی اے)