امریکہ بدلے گا تو ایران بھی بدلے گا: آیت اللہ خامنہ ائی
21 مارچ 2009ایران کے روحانی رہنما آیت اللہ خامنہ ائی نے امریکی صدر باراک اوباما کی طرف سے باہمی رابطوں کے نئے سلسلے کے آغاز کی پیشکش پر محتاط ردعمل ظاہر کیا ہے۔
خامنہ ائی نے کہا کہ اوباما کا نیا ویڈیو پیغام بھی جارحانہ تھا اور اس میں ایران پر بہت سارے الزامات عائد کئے گئے۔خامنہ ائی نے تاہم کہا کہ اگر اوباما امریکی پالیسی میں تبدیلی لائیں گے تو اسلامی جمہوریہ ایران بھی اپنے موقف میں تبدیلی لانے کے لئے تیار ہوگا۔
اوباما نے اپنے ایک حالیہ ویڈیو پیغام میں تہران حکومت کے ساتھ رابطے بحال کرنے کی پیشکش کی تھی۔ صدر اوباما نے اپنے پیغام میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر ایران تشّدد کے راستے کو ترک کرکے امن کے راستے کا انتخاب کرتا ہے تو وہ بین الاقوامی برادری میں ایک مثبت کردار ادا کرسکتا ہے۔ اوباما نے مزید کہا کہ ان کی انتظامیہ ایران کے ساتھ تمام تنازعات کو سفارتی سطح پر حل کرنے کی خواہاں ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ خاوئیر سولانا نے بھی امریکی صدر باراک اوباما کی اس پیشکش کا خیرمقدم کیا تھا۔ خاوئیر سولانا نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ ایرانی حکومت امریکی صدر اوباما کی نئی پیشکش کا مثبت جواب دے گی۔
جمعہ کو نوروز یعنی ایران میں نئے سال کی آمد کے موقع پر آیت اللہ علی خامنہ ائی نے کہا تھا کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت تہران کے جوہری پروگرام کو روک نہیں سکتی ہے۔ خامنہ ائی نے یہ بھی کہا تھا کہ اب عالمی رہنما اس بات کو جان گئے ہیں کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو طاقت کے بل بوتے پر روکا نہیں جاسکتا ہے۔
1980ء سے ایران اور امریکہ کے سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔
دریں اثناء ایرانی صدر کے پریس ایڈوائزر نے بھی اوباما کی پیشکش پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے صدر احمدی نژاد کے اس دیرینہ موقف کو دہرایا تھا کہ امریکہ کو ایران کے قریب آنے سے قبل ان کے بقول اپنی ’’غیر حقیقت پسندانہ اور جارحانہ پالیسی‘‘ میں لچک پیدا کرنا ہوگی۔