امریکہ : مسلمانوں میں انتہا پسندی سے متعلق کانگریس کی متنازعہ سماعت
7 مارچ 2011امریکہ کے مسلمان حلقے کانگریس میں رواں ماہ کے لیے شیڈیول اس معاملے کی سماعت کو ’اسلامو فوبیا‘ کا نام دے رہے ہیں۔ کیتھ ایلیسن نے کہا ہے کہ وہ ایوان نمائندگان میں داخلی سلامتی سے متعلق کمیٹی میں پیش ہوں گے اور اس سماعت کی بنیادی حیثیت کو چیلنج کریں گے۔
ایلیسن نے کانگریس کی جانب سے ملک میں انتہائی پسندی کی تحقیقات کو سراہتے ہوئے کہا کہ محض اسلام کو نشانہ بنانا ایسا ہی ہے جیسا کسی منظم جرم کی تحقیقات کے سلسلے میں روسی برادری کی بات کرنا یا آئرش گروہوں پر توجہ مرکوز رکھنا۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا، ’میرے خیال میں اس میں کوئی منطق نہیں کہ ایسے گروہ پر توجہ مرکوز کردی جائے، جو پہلے ہی مختلف پیمانے کے امتیازی سلوک کا نشانہ ہے‘۔
جاپانی نژاد امریکی سیاست دان مائیک ہونڈا نے بھی اس مجوزہ سماعت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے بقول آبادی کے اتنے بڑے حصے کو اس طرح شک کی نظر سے دیکھنے کے وسیع تر نقصانات ہوسکتے ہیں۔
اس سماعت کا آغاز جمعرات کو ہوگا۔ سماعت کرنے والے پینل کی سربراہی کرنے والے ری پبلکن سیاست دان پیٹر کنگ کا کہنا ہے کہ امریکہ میں مسلمان برادری کو انتہا پسندی کی جانب راغب کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ امریکی حکام دہشت گردی کے شبے پر درجنوں مسلمان امریکی شہریوں کو گرفتار کرچکے ہیں۔
دوسری جانب نیویارک میں مسلمانوں کے ایک بڑے اجتماع نے بھی بین الاقوامی میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ہے۔ اس پر امن احتجاجی مظاہرے کے شرکاء کی اکثریت امریکی مسلمانوں پر مشتمل تھی، جنہوں نے انتہا پسندی سے نفرت اور اپنے ملک ’امریکہ‘ سے محبت کا مظاہرہ کیا۔
نیویارک کے اسلامک کلچر سینٹر کے سربراہ امام شمسی علی نے اجتماع سے خطاب میں کہا، ’ میں ایک مسلمان ہوں اور اس ملک سے اتنی ہی محبت کرتا ہوں جتنا ایک مسیحی یا یہودی کرتا ہے‘۔ اس احتجاجی مظاہرے کے آغاز پر پاکستانی نژاد 17 سالہ طالبہ انعم چوہدری نے امریکی قومی ترانہ گایا۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ