امریکہ میں روسی جاسوس: سرد جنگ کی بازگشت
30 جون 2010وائٹ ہاؤس نے اِن گرفتاریوں کے بعد ماسکو حکومت کو واضح انداز میں ہدفِ تنقید بنانے سے گریز کیا ہے تو روسی وزیر اعظم ولادی میر پوٹین نے بھی جذباتی بیان بازی کی بجائے یہ اُمید ظاہر کی ہے کہ دو طرفہ تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔ روس کے ایک دورے پر گئے ہوئے سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے ساتھ ایک ملاقات کے موقع پر پوٹین نے کہا:’’مجھے اُمید ہے کہ ان واقعات سے وہ مثبت پیش رفت متاثر نہیں ہو گی، جو ہمارے باہمی تعلقات میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران دیکھنے میں آئی ہے۔‘‘ ایک معروف روسی اخبار نے تو اپنی ایک رپورٹ میں یہ تک کہا ہے کہ کشیدگی میں مزید اضافے کو روکنے کی غرض سے روسی حکام کو خاموشی اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اُدھر واشنگٹن حکومت کی بھی کوشش ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ کچھ برسوں سے چلے آ رہے دوستانہ تعلقات پر کوئی آنچ نہ آئے۔ امریکی وزارتِ خارجہ میں اسسٹنٹ سٹیٹ سیکریٹری فلپ گورڈن نے کہا:’’ہماری خواہش ہے کہ روس اور امریکہ کے درمیان اعتماد اور تعاون اِس حد تک پہنچ جائے کہ کسی کو معاملات کی ٹوہ لینے کے لئے خفیہ اداروں کو استعمال کرنے کا خیال بھی نہ آئے۔ ہم غالباً ابھی اِس مرحلے تک نہیں پہنچ پائے۔‘‘
اِن مبینہ جاسوسوں کی گرفتاری کے لئے جس وقت کا انتخاب کیا گیا ہے، اُس پر امریکی صدر باراک اوباما ہرگز خوش نہیں ہیں۔ ابھی چند ہی روز پہلے تو اُنہوں نے روسی صدر دمتری میدویدیف کے ساتھ ملاقات کی تھی اور دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی طے کیا تھا کہ آئندہ امریکی اور روسی خفیہ ادارے ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ قریبی اشتراکِ عمل کریں گے۔ تاہم امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی نے اِن افراد کو گرفتار کرنے کے اقدام کا یہ کہہ کر دفاع کیا ہے کہ اِن افراد کے ملک سے فرار ہونے کا فوری خطرہ تھا۔
ادھر روسی میڈیا اور پریس نے اِس سکینڈل کے حوالے سے امریکی دعووں کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ روزنامہ ’کومرسانٹ‘ نے لکھا ہے کہ امریکہ میں روسی جاسوسی سکینڈل انتہائی ’’ناقابلِ یقین‘‘ اور ’’بےحد غیر ضروری‘‘ معلوم ہوتا ہے۔ دیگر روسی اخبارات کا کہنا ہے کہ اِس سکینڈل کا اصل ہدف امریکی صدر باراک اوباما ہیں، جو برسوں کے خراب تعلقات کے بعد ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کی بحالی اور مفاہمت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ماسکو حکومت سے قریبی وابستگی کی شہرت رکھنے والے کثیرالاشاعت اخبار ’موسکووسکی کومسومولیٹس‘ نے لکھا ہے:’’یہ قیاس آرائی زیادہ منطقی معلوم ہوتی ہے کہ اِس ساری کہانی کا ہدف اوباما ہیں، جنہیں امریکہ میں بہت سے لوگ ناپسند کرتے ہیں۔‘‘ اس اخبار کے مطابق ’اِس سکینڈل میں انٹیلی جنس کم ہے، سیاست زیادہ ہے۔‘
رپورٹ: امجد علی
ادارت: گوہر نذیر گیلانی