امریکی اور یورپی پابندیوں کی انسانی قیمت: چالیس ہزار ہلاکتیں
1 اکتوبر 2019وینزویلا کا المیہ یہ ہے کہ امریکا اور یورپی یونین نے جن پابندیوں کے ساتھ اس ملک کے صدر نکولاس مادورو کو اقتدار سے علیحدہ ہونے پر مجبور کر دینے کا سوچا تھا، ان کا نشانہ عوام بن رہے ہیں۔ کارولینا سُوبیرو اپنی والدہ، بہن اور تین بچوں کے ساتھ وینزویلا کے دارالحکومت کراکس کی ایک غریب آبادی میں کچی اینٹوں کے بنے صرف دو بیڈ روم کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہتی ہیں۔
کارولینا کی سب سے چھوٹی بیٹی کی عمر پانچ سال ہے، جو مرگی کی مریضہ ہے اور اسے باقاعدگی سے ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن کارولینا اپنی اس بیٹی کے لیے ادویات حاصل کر ہی نہیں سکتیں۔
کارولینا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری اس بیٹی کو روز دورے پڑتے ہیں۔ اگر اسے ادویات دستیاب ہوں، تو ان دوروں کی شدت بہت زیادہ نہیں ہوتی۔ لیکن ہم چونکہ اس کے لیے دوائیاں حاصل نہیں کر سکتے، اس لیے اب ڈاکٹر اسے ہسپتال بھیج دیں گے۔‘‘ یہ چھوٹی سی بچی پہلے ہر روز چار مختلف اقسام کی ادویات استعمال کرتی تھی۔ لیکن امریکی پابندیوں کی وجہ سے اب بہت سی ضروری ادویات وینزویلا میں درآمد نہیں کی جا سکتیں۔ اب اس بچی کو اس کی کل چار میں سے صرف ایک دوائی دستیاب ہوتی ہے اور وہ بھی کبھی کبھی، جو کہ انتہائی مہنگی بھی ہو چکی ہے۔
کارولینا کی جنجرلیس نامی بیٹی کے لیے اس ایک دوائی کی ایک پیکنگ صرف دس دن کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اس کی قیمت تقریباﹰ آٹھ امریکی ڈالر یا 7.3 یورو کے برابر ہوتی ہے۔ بظاہر یہ کوئی زیادہ قیمت نہیں ہے۔ لیکن وینزویلا میں، جسے اپنی کرنسی بولیوار کی شرح تبادلہ میں حیران کن حد تک کمی کا سامنا ہے، یہ بہت بڑی قیمت ہے۔ کارولینا کہتی ہیں، ''میں یہ دوائی خریدنے کی متحمل تو ہو ہی نہیں سکتی۔ میں خوراک کے بدلے ادویات کا تبادلہ کر لیتی ہوں۔‘‘
تین لاکھ شہریوں کی زندگیاں خطرے میں
کارولینا کی پانچ سالہ بیٹی جنجرلیس وینزویلا میں اپنی نوعیت کی کوئی واحد مثال نہیں ہے۔ اس ملک میں تین لاکھ سے زائد مریض ایسے ہیں، جن کی زندگیاں ادویات تک رسائی نہ ہونے یا ناکافی دوائیوں کی وجہ سے خطرے میں ہیں اور اس صورت حال کی وجہ غیر ملکی پابندیاں ہیں۔
ان مریضوں میں 16 ہزار ایسے شہری بھی شامل ہیں، جنہیں گردے ناکام ہو جانے کی وجہ سے اپنا ڈائیالیسس کروانا پڑتا ہے۔ ادویات کے ضرورت مند کینسر کے مریضوں کی تعداد بھی 16 ہزار کے قریب ہے جبکہ 80 ہزار مریض ایسے ہیں، جن میں ایڈز کا باعث بننے والے ایچ آئی وی وائرس کی موجودگی کی تشخیص ہو چکی ہے۔ یہ سب اعداد و شمار امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم مرکز برائے معیشت اور پالیسی ریسرچ کی اس رپورٹ کا حصہ ہیں، جو اس سال اپریل میں جاری کی گئی تھی۔
اس سے بھی پریشان کن بات یہ ہے کہ وینزویلا میں امریکی اور یورپی پابندیوں کی وجہ سے عوام کو درپیش مسائل آئندہ دنوں میں کم ہونے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگست میں امریکا نے وینزویلا کے خلاف اپنی پابندیوں کو 'مکمل اور بھرپور‘ بنا دیا تھا جب کہ گزشتہ ہفتے یورپی یونین نے بھی اس ملک کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کر دیا تھا۔
'پابندیوں کا شکار صرف حکومت نہیں مریض بھی‘
وینزویلا میں ماضی میں ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ شہریوں کو اینٹی وائرل ادویات حکومت کی طرف سے عشروں تک بالکل مفت فراہم کی جاتی تھیں۔ ان ادویات کی ملک گیر سطح پر تقسیم کے نگران عہدیدار مارسیل کوئنتانا کہتے ہیں، ''یہ پابندیاں صرف حکومت کے خلاف نہیں ہیں۔ یہ ان شہریوں کے خلاف بھی ہیں، جو ایچ آئی وی وائرس کا شکار ہیں۔ یہ پابندیاں کینسر کے ان مریضوں کے خلاف بھی ہیں، جن کے لیے لازمی ادویات وینزویلا میں درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔‘‘
امریکا کی وینزویلا کے خلاف پابندیوں کا نفاذ پہلی مرتبہ باراک اوباما کے دور میں 2015ء میں ہوا تھا لیکن جب سے ٹرمپ انتظامیہ اقتدار میں آئی ہے، اس نے ان پابندیوں کو سخت تر کر دیا ہے۔ ان کے تحت وینزویلا سے، جہاں حکومت کی 90 فیصد آمدنی کا ذریعہ تیل کی صنعت ہے، تیل کی درآمد پر بھی پابندی لگائی جا چکی ہے۔
بیرون ملک جملہ ریاستی اثاثے منجمد
ٹرمپ انتظامیہ کی 2017ء میں عائد کردہ پابندیوں کے تحت واشنگٹن نے وینزویلا کی سرکاری تیل کمپنی کے ایک امریکی ذیلی ادارے کو بھی اپنے قبضے میں لے رکھا ہے، جس کے اثاثوں کی مالیت آٹھ بلین ڈالر بنتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ امریکی حکومت نے وینزویلا کی ملکیت کم از کم 50 بینکوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں رکھی گئی 5.5 بلین ڈالر کی رقوم بھی منجمد کر رکھی ہیں۔
لیکن اگر کراکس حکومت کو اس کے ان غیر ملکی اثاثوں تک رسائی حاصل ہو بھی جائے، تو بھی وہ کچھ نہیں کر سکے گی۔ اس لیے کہ امریکا نے ان تمام غیر ملکی اداروں پر پابندیاں لگانے کی دھمکیاں بھی دے رکھی ہیں، جو وینزویلا کے ساتھ تجارت کریں گے۔
بیرون ملک سے فاضل پرزوں کی عدم دستیابی
وینزویلا کے دارالحکومت میں پانی کی ترسیل کے سرکاری ادارے کے نمائندوں کے مطابق 15 سے لے کر 20 فیصد تک عام شہریوں کو اپنے گھروں میں پانی تک رسائی حاصل نہیں۔ اس کا ایک سبب پانی کی ترسیل کا وہ نظام بھی ہے، جو پرانا ہو چکا ہے اور جس کے جدید بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ لیکن حکومت بیرون ملک سے وہ فاضل پرزے بھی نہیں خرید سکتی، جو ٹوٹے ہوئے پمپوں اور پائپوں کی مرمت کے لیے ضروری ہیں۔
کراکس کے زیادہ تر حصوں کو ہر ہفتے پینے کا پانی آبی ادارے کے ٹرکوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔ لیکن اب ایسے زیادہ تر واٹر ٹرک بھی قابل استعمال نہیں رہے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران کراکس میں واٹر ٹرکوں کی تعداد میں 75 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ وجہ: ان کی مرمت کے لیے ضروری آٹو موبائل پرزے دستیاب ہی نہیں ہیں۔
چالیس ہزار شہری ہلاکتیں
وینزویلا کے خلاف بیرونی پابندیوں کے ایسے ہی اثرات کی وجہ سے اس ملک میں اب تک 40 ہزار ایسے شہری ہلاک ہو چکے ہیں، جن کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔
کارولینا سُوبیرو کہتی ہیں، ''انہیں کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان پابندیوں کے ذریعے صدر مادورو کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ لیکن نشانہ تو عوام بن رہے ہیں۔ اگر وہ (پابندیاں لگانے والے ممالک) واقعی وینزویلا کے لیے کوئی اچھا کام کرنا چاہتے ہیں، تو وہ، وہ سب کچھ نہ کر رہے ہوتے، جو وہ کر رہے ہیں۔‘‘
مائیکل فوکس (م م / ع ا)