واگنر کے ساتھ روس کے معاملات طے پا گئے، سکیورٹی ہائی الرٹ
25 جون 2023روس میں کرائے کے فوجیوں کے گروپ واگنر کی طرف سے روسی فوج کے خلاف ’بغاوت‘ کا معاملہ بالآخر طے پا گیا۔ روسی حکومت کے مطابق بيلاروسی صدر اليگزانڈر لوکاشينکو کی ثالثی کے بعد يہ طے پايا کہ بغاوت کا اعلان کرنے والے واگنر گروپ کے سربراہ ژیفگينی پريگوژن کو بيلاروس بھيج ديا جائے گا۔
ماسکو حکومت نے یہ تصديق کی کہ ان کے اور اس گروپ کے فوجيوں کے خلاف کوئی کارروائی نہيں کی جائے گی۔
- ماسکو اور تولا میں شاہراہوں پر پابندیاں نافذ
- امریکی خفیہ ایجنسیوں نے واگنر گروپ کی بغاوت کے آثار پہلے ہی بھانپ لیے تھے، امریکی میڈیا
- جرمن وزیر خارجہ نے اپنا جنوبی افریقہ کا دورہ مختصر کر دیا
- واگنر فوجیوں نے بغاوت کو ترک کرتے ہوئے روستوف آن ڈان کو چھوڑ دیا، گورنر
- واگنر گروپ کی بغاوت، کب کیا ہوا
ماسکو اور تولا میں شاہراہوں پر پابندیاں نافذ
کریملن کے خلاف ژیفگینی پریگوژن کی بغاوت کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال کے سبب روسی حکام نے دارالحکومت ماسکو اور تولا کے علاقوں میں ایک اہم شاہراہ پر ٹریفک کی نقل و حرکت پابندیاں عائد کردی ہیں۔
شاہراہوں سے متعلق روس کی وفاقی ایجنسی نے ٹیلی گرام میسجنگ ایپ پر بتایا کہ اتوار کے روز بڑے ایکسپریس وے ایم -4 'ڈان‘ پر ٹریفک کے حوالے سے پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
اس ایجنسی کی طرف سے لکھا گیا، ’’ان علاقوں میں پہلے سے کیے گئے فیصلوں کے مطابق، تولا اور ماسکو کے علاقوں میں ایم -4 'ڈان‘ (شاہراہ) پر ٹریفک پر پابندی برقرار ہے۔‘‘
امریکی خفیہ ایجنسیوں نے واگنر گروپ کی بغاوت کے آثار پہلے ہی بھانپ لیے تھے، امریکی میڈیا
واشنگٹن پوسٹ اور نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسیوں نے پیش گوئی کی تھی کہ ژیفگینی پریگوژن کریملن کے خلاف بغاوت کی تیاری کر رہے ہیں۔
امریکی انٹیلی جنس حکام نے روس میں یہ صورتحال پیدا ہونے سے ایک روز قبل وائٹ ہاؤس، پینٹاگون اور کیپیٹل ہل میں بریفنگز دی تھی۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسیوں نے سب سے پہلے جون کے وسط میں روسی فوجی قیادت کے خلاف بغاوت کی منصوبہ بندی کے اشارے کا جائزہ لینا شروع کیا تھا۔ نیو یارک ٹائمز نے کہا کہ ہفتے کے وسط تک یہ معلومات ٹھوس اور پریشان کن شکل اختیار کر چکی تھی۔
جرمن وزیر خارجہ نے اپنا جنوبی افریقہ کا دورہ مختصر کر دیا
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے واگنر گروپ اور کریملن کے درمیان اس تنازعے کے سبب اپنا دورہ جنوبی افریقہ مختصر کر دیا۔
بیئربوک نے آج اتوار کی سہ پہر کو کیپ ٹاؤن پہنچنا تھا اور پیر کا دن بھی انہوں نے وہیں گزارنا تھا۔ تاہم اب وہ پیر کے روز یورپی وزرائے خارجہ کی لکسمبرگ میں ہونے والی ملاقات میں شرکت کریں گی۔
مگر توقع کی جا رہی ہے کہ بیئربوک جنوبی افریقہ کے دارالحکومت پریٹوریا منگل 27 جون کو بات چیت کے لیے دوبارہ جائیں گی۔
واگنر فوجیوں نے بغاوت کو ترک کرتے ہوئے روستوف آن ڈان کو چھوڑ دیا، گورنر
علاقائی گورنر نے کہا ہے کہ واگنر گروپ کے جنگجو جنوبی روسی شہر روستوف آن ڈان چھوڑ چکے ہیں اور اپنے فیلڈ کیمپوں کی طرف واپس جا رہے ہیں۔
خبر رساں اداروں نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ ٹینک، مال بردار ٹرک اور جنگجوؤں کو لے جانے والی کئی منی وین شہر سے روانہ ہو رہی ہیں۔
نجی فوجی گروپ نے ہفتہ 23 جون کو روستوف کے فوجی ہیڈ کوارٹرز پر قبضہ کر لیا تھا، جہاں سے روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کی کارروائیاں کنٹرول کی جاتی ہیں۔
بیلاروس کی ثالثی میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت واگنر کے جنگجوؤں نے روستوف کو چھوڑ دیا، جس کے بارے میں ان کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس طرح خونریزی سے بچا جا سکے گا اور بحران میں کمی آئے گی۔
واگنر گروپ کی بغاوت، کب کیا ہوا
روسی کرائے کے فوجیوں کے گروپ واگنر کے سربراہ ژیفگینی پریگوژن نے جمعہ 23 جون کو دعویٰ کیا تھا کہ روسی فوج نے ان کے فوجیوں پر حملہ کیا ہے۔
پریگوژن نے یوکرین پر روس کے حملے کے جواز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یوکرین پر حملے کے ذریعے روسی اشرافیہ کا مقصد ملک سے ’مادی اثاثے‘ حاصل کرنا تھا۔
اس کے بعد روسی حکام نے اس اقدام کو ’’بغاوت‘‘ قرار دیتے ہوئے پریگوژن کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا۔
پریگوژن نے روس میں اپنی افواج کی قیادت کرتے ہوئے ملک کے جنوبی شہر روستوف آن ڈان کا کنٹرول سنبھال لیا اور روسی فوجیوں کے آمنے سامنے آ گئے۔ واگنر کے سربراہ نے کہا کہ یہ اقدام ’فوجی بغاوت‘ نہیں بلکہ 'انصاف کے لیے مارچ‘ ہے۔
واگنر کے کچھ ارکان ماسکو کی طرف بڑھ رہے تھے، جو روس کی حکومت کے لیے براہ راست خطرہ تھے۔
ہفتہ 24 جون کو کریملن نے اعلان کیا وہ واگنر گروپ کے ساتھ ایک معاہدے تک پہنچ گیا ہے۔ کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف کے مطابق اس معاہدے کی ثالثی بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے کی ۔
معاہدے کی شرائط کے تحت روس کی حکومت بغاوت میں حصہ لینے والے واگنر گروپ کے ارکان کے خلاف فوجداری مقدمات قائم نہیں کرے گی اور گروپ کے سربراہ پریگوژن بھی بیلاروس چلے جائیں گے۔
پریگوژن ماضی میں متعدد مواقع پر یوکرین میں واگنر گروپ کے فوجیوں کو ناکافی گولہ بارود فراہم کرنے پر روس کی فوجی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔
ا ب ا/ع س (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)