انسانوں میں بھگدڑ کیوں مچتی ہے، سائنسی وجوہات کیا ہیں؟
4 جولائی 2024منگل کے روز بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش میں ایک مذہبی اجتماع کے دوران بھگدڑ مچ جانے سے کم از کم 121 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ایسی خبریں پڑھنے کے بعد سب سے پہلا خیال یہ آتا ہے کہ ایسا کیسے ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے؟
اجتماع میں موجود لوگوں اس وقت کیا سوچ رہے تھے؟ اگر آپ ایسی ہی کسی صورت حال میں پھنس جائیں، تو آپ کا ردعمل کیسا ہونا چاہیے؟
بھارتی حکام نے دو جولائی بروز منگل پیش آنے والے اس واقعے کی وجوہات کے بارے میں کچھ زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں لیکن ہجوم کو کنٹرول کرنے کے ماہرین کے مطابق ماضی میں پیش آنے والے بھگدڑ کے واقعات کے مطالعوں سے حاصل کردہ نتائج یہ ہیں۔
بھگدڑ کا ماحول کیسے بنتا ہے؟
سوئٹزرلینڈ کی سینٹ گالن یونیورسٹی میں ثقافتی اور سماجی نفسیات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر انا زیبن برسوں سے ہجوم کی حرکیات پر تحقیق کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جو لوگ ایسی کسی بھگدڑ کے واقعے میں شامل ہوتے ہیں، انہیں یہ ادراک ہی نہیں ہوتا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے، یہاں تک کہ پھر بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
سوئٹزرلینڈ کے ای ٹی ایچ زیورخ میں کمپیوٹیشنل سوشل سائنس کے پروفیسر ڈیرک ہیلبنگ بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں، ''ہجوم میں پیش آنے والے ایسے زیادہ تر حادثات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ خوف و ہراس کا نتیجہ ہوتے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ''یہ ایک ایسی ذہنی حالت ہوتی ہے، جس میں اضطراب اور خوف بڑھ جاتے ہیں جبکہ خون کی گردش بھی تیز تر ہوتی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان جبلی طور پر 'بھاگو یا لڑو‘ کی کیفیت میں آ جاتا ہے۔ اس کے بعد لوگ بلاوجہ خوف زدہ ہو کر بھاگنا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ ان کو بھی پاؤں تلے کچلنا شروع کر دیتے ہیں، جو ان کے راستے میں آتے ہیں۔‘‘
تاہم فقط ذہنی حالت ہی بھگدڑ کی ذمہ دار نہیں ہوتی۔ پروفیسر ڈیرک ہیلبنگ کے مطابق نفسیاتی حالت کے بجائے، ''کراؤڈ ٹربولینس‘‘ نامی جسمانی قوتیں بھگدڑ کے سانحات کا امکان بڑھا دیتی ہیں۔
کراؤڈ ٹربولینس کیا ہے؟
پروفیسر ڈیرک ہیلبنگ کے مطابق کراؤڈ ٹربولینس اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب بہت سے لوگ کسی ایسی جگہ موجود ہوتے ہیں، جہاں چلنے پھرنے کی گنجائش کم اور لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ وہاں لوگ ایک دوسرے کے درمیان دب جاتے ہیں۔
اس طرح ایک نئی قوت پیدا ہوتی ہے، جسے پروفیسر ڈیرک ہیلبنگ جسموں کے درمیان ''قوتوں کی منتقلی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''وہ قوت غیر متوقع طریقوں سے لوگوں کو جوڑتی اور پھر دھکیل دیتی ہے۔ اس قوت سے کبھی کبھار لوگ کئی کئی میٹر دور تک چلے جاتے ہیں۔ اس طرح کی صورت حال میں اپنا توازن برقرار رکھنا اور اپنے پاؤں پر کھڑا رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
آخر کار کوئی ایک شخص ٹھوکر کھا کر گر جاتا ہے، جس سے بھیڑ میں خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ جب جگہ خالی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ جڑے شخص کو سہارا دینے والی قوت ختم ہو جاتی ہے اور نتیجے کے طور پر وہ بھی گر پڑتا ہے۔
پروفیسر ہیلبنگ کے مطابق اس طرح ایک ''جان لیوا ڈومینو ایفیکٹ‘‘ پیدا ہوتا ہے، ''جب کوئی ایک شخص دوسرے شخص کے اوپر گرتا ہے تو وزن کی وجہ سے سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا بہت سے لوگ دم گھٹنے سے مر سکتے ہیں، جیسا کہ جرمنی میں ایک مرتبہ لو پریڈ میں، سیئول میں اور اس سے پہلے بہت سی دوسری جگہوں پر دیکھا گیا تھا۔‘‘
ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟
بھگدڑ کے واقعات شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں اور جیسا کہ پروفیسر زیبن کہتی ہیں کہ یہ سمجھنا اکثر مشکل ہوتا ہے کہ آپ اس کا حصہ ہیں۔ جب تک آپ کو سمجھ آتی ہے، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
تاہم وہ کہتی ہیں کہ ایک نشانی ہے، جو ممکنہ طور پر بھگدڑ کے واقعے کے آغاز یا اس کے رونما ہونے کی پیش گوئی کر سکتی ہے۔ وہ ہے ہجوم کا تمام سمتوں میں بے قابو ہو کر ڈولنا۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ بھیڑ میں زیادہ دباؤ کی علامت ہو سکتی ہے۔ اگر کبھی آپ کو بھیڑ میں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے تو بہتر ہے آپ اپنے لیے فورا کوئی محفوظ راستہ تلاش کریں اور کسی کھلی جگہ کی طرف چلے جائیں۔ بعض اوقات لوگ ہنگامی راستوں کی طرف بھاگتے ہیں، جہاں دوبارہ ایسی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ایسے میں ہجوم کے قریب ہی کوئی خالی جگہ تلاش کی جا سکتی ہے۔
ا ا / م م (کلیئر روتھ)