انسانی حقوق عالمگیریت کے دورمیں
20 جون 2011ایک بہتر مستقبل کی ضمانت بین الاقوامی قوانین وضح کر کے ہی ممکن ہے۔ یہ کہنا ہے جرمنی کے انسانی حقوق کے ادارے کے قائم مقام ڈائرکٹر میشائل وِنڈ فوہر کا۔
دنیا بھر میں بہت زیادہ طاقت کی حامل ریاستوں میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف جنگ مقصد تھا انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین وضح کرنے کا، جنہیں 1948 میں ایک اعلامیے کی صورت میں منظور کیا گیا تھا۔ یہ قوانین ہر اُس انسان کو تحفظ فراہم کرتے ہیں جسے کسی بھی طاقتور ریاست میں اُس کی نسل، رنگ، جنس یا جنسی رجحان کے سبب استحصال کا شکار بنایا جا تا ہے۔ اُسے اذیت پہنچائی جاتی ہے، ایسے افراد کو گرفتار کر لیا جاتا ہے یہاں تک کہ یہ لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ مذکورہ وجوہات کی بنیاد پر اکثر ایسے افراد کو روزگار، زمین اور بینک کے قرضوں سے محروم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بنیادی حقوقِ انسانی کے تحت تمام انسانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شہری، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں اپنی مرضی سے زندگی بسر کریں، ایک ایسی زندگی جو نہ تو جبر و تشدد، نہ ہی ظلم و ستم سے عبارت ہو، نہ ہی ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہواورنہ ہی انہیں معاشرے کے مرکزی دھارے سے الگ تھلگ کیا جائے۔ تمام ریاستوں اور بین الاقوامی برادری پر لازم ہے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کا احترام کریں اور انہیں تحفظ فراہم کریں۔ مزید یہ کہ اس امر کا بھی خاص خیال رکھا جانا چاہیے کے نجی آجرین اور دیگر غیر سرکاری یا غیر ریاستی ادارے اور عناصر ان حقوق کی خلاف ورزی نہ کریں۔
انسانی حقوق تمام ریاستوں اور اداروں کو اس بات کا بھی پابند بناتے ہیں کہ دنیا بھر میں جہاں بھی بہت زیادہ وسائل پائے جاتے ہیں، ان کی مدد سے خاص طور سے ایسے گروہوں کے بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنائے جو نظر انداز کیے جاتے ہیں اور بہت سے حقوق سے محروم ہیں۔ عالمگیریت کے اس دور میں تاہم یہ سب کچھ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔
رکاوٹ کی وجہ بین الاقوامی معاہدے
بین الاقوامی معاہدے ہی اکثر ریاستوں کو انسانی حقوق کے قوانین کے اطلاق کے لیے اہم اقدامات کرنے سے روکتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس سوال کے سامنے آنے کے بعد ہوا کہ ’ مختلف ریاستیں ایچ آئی وی ایڈز کے خلاف ادویات مارکیٹ میں لانے اور اس دوا کی سستی جنرک تیاری کے لیے لائیسنس جاری کرنے میں کیا کردار ادا کر سکتی ہیں؟ اس اہم معاملے میں بھی بین الاقوامی معاہدے رکاوٹیں کھڑی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح مقروض ترقی پذیر ممالک بنیادی ڈھانچے اور دیہی علاقوں کی ترقی کے لیے کئی کئی سال عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ مشاورت میں ہی گزار دیتے ہیں۔ انہیں وسائل کی کمی کے سبب ترقیاتی کاموں کو روکنا اور غیر ملکوں سے ادویات کی برآمد کرنا پڑتی ہیں۔ اکثر قرضوں کی منظوری کا انحصار انہی عوامل پر ہوتا ہے۔
عالمگیریت کے لیے ایک چیلنج
متعدد مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عالمگیریت کے دور میں انسانی حقوق کے تحفظ میں نقائص پیدا ہو گئے ہیں۔ اکثر و بیشتر عالمی سطح پر کام کرنے والے آجرین بہت کم ہی قومی عدالتوں کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ اس طرح بین الاقوامی قوانین میں کوئی خاطر خواہ بہتری رونما نہیں ہو پاتی۔ مقامی حکومتیں اور تفتیشی ادارے بھی اکثر وبیشتر بدعنوانی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس طرح روزگار فراہم کرنے والی بڑی کمپنیوں کے اندر بھی بدعنوانی کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے۔
رپورٹ/ میشائیل ونڈ فوہر/ کشور مصطفٰی
ادارت: عدنان اسحاق